ممتاز احمد طاہر: بابائے علاقائی صحافت
روزنامہ آفتاب لاہور، ملتان اور کراچی کے مدیر اعلیٰ اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) کے سینئر رہنما جناب ممتاز احمد طاہر جمعرات 30 مارچ 2023 ئ(8 رمضان المبارک 1444 ) کو دنیا سے کیا رخصت ہوئے میرے سمیت پاکستان کی صحافتی برادری کے ہر شخص پر کوہِ غم ٹوٹ پڑا۔ میری ان سے شناسائی کی مدت اب نصف صدی کو عبور کرچکی ہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ملتان میں روزنامہ وفاق لاہور کے بیورو چیف کی حیثیت سے کیا اور اسی دور میں میرا ان سے تعارف ہوا۔ یہ کم وبیش پچاس سال پرانی بات ہے۔ وفاق سے علیحدگی کے بعد انہوں نے اپنے صحافتی مرشد اویسی صاحب کی ملکیت میں شائع ہونے والے روزنامہ نوائے ملتان کی ادارت کے فرائض ادا کئے۔ کچھ عرصہ روزنامہ سنگ میل ملتان سے بھی وابستہ رہے۔ جناب مجید نظامی کے زمانہ ادارت میں انہوں نے ملتان میں بیورو چیف یا ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور پھر اپنا اخبار روزنامہ آفتاب ملتان کے نام سے نکالا، جب بھٹو صاحب کے خلاف عوامی تحریک زوروں پر تھی لاہور سے روزنامہ وفاق اور ملتان سے روزنامہ آفتاب اور کراچی سے روزنامہ صداقت اس تحریک (جسے مولانا مفتی محمود کی صدارت اور مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت کی بدولت تحریک نظام مصطفی کا نام ملا)۔ اس تحریک کے ہراول دستہ میں شامل تھے، کئی سال بعد ممتاز صاحب نے لاہور سے روزنامہ ’’آفتاب‘‘ کا اجراء کیا اور لکشمی چوک کی معروف لکشمی بلڈنگ کے ساتھ ایک عمارت کی چوتھی منزل پر اخبار کادفتر قائم کیا۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفی میں ممتاز صاحب نے اہل سنت والجماعت کے علماء اور قائدین کا اعتماد حاصل کیا اور آفتاب نے عملی طور پر اہل سنت مسلک (بریلوی مکتب فکر) کے ترجمان کی حیثیت اختیار کرلی۔ جمعیت علماء پاکستان کے قائد اور رہبر حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے خاص طور پر ممتاز صاحب کے اخبار کی سرپرستی قبول کئے رکھی جبکہ مصطفی صادق اور اس عاجز کی زیر ادارت ’’وفاق‘‘ کو حضرت مولانا مفتی محمود، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، حضرت مولانا محمد اجمل، حضرت مولانا عبید اللہ انور (جانشین شیخ لاہوری، مولانا احمد علی مرحوم) نے اپنی معاونت اور سرپرستی سے نوازا۔ جب آفتاب لاہور سے شائع ہوا تو ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی۔ ممتاز صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو اپنے اخبار کا وزن اس پلڑے میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں ان کے اخبار کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے گئے اور سرکاری دفاتر اور اداروں میں روزنامہ آفتاب کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ممتاز طاہر سب سختیوں کے باوجود ثابت قدم رہے اوراستقامت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
انہوں نے اے پی این ایس اور سی پی این کے محاذوں پر بھی فعال کردار ادا کیا ۔ وہ خاص طور پر علاقائی اخبارات اور جنوبی پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے۔ کوئی بھی حکومت ہو اور کوئی بھی حکمران ہو جب مدیران جرائد کا سامنا ہوا تو علاقائی اخبارات اور جنوبی پنجاب کے مسائل پر اٹھنے والی ایک ہی توانا آواز ہوتی تھی۔ مدیر وفاق جناب مصطفی صادق جب تک حیات اور فعال رہے اضلاع سے شائع ہونے والے اخبارات کی ترجمانی کا فریضہ وہ ادا کرتے رہے۔ ان کے انتقال پر جناب مجیب الرحمن شامی نے سرخی لگائی ’’بابائے علاقائی صحافت‘‘ دنیا سے چلے گئے۔ اب ممتاز طاہر صاحب بجا طور پر اس خطاب یا لقب کے مستحق ہیں۔ ضلعی اخبارات ہمیشہ انہیں اپنے محسن کی حیثیت سے یاد رکھیں گے۔
ان کی رحلت ایک عظیم صحافی اور قومی رہنما اور روحانی پیشوا کی موت ہے۔ میرے لئے ان کا دنیا سے چلے جانا ذاتی طور پر بڑے صدمہ کا باعث ہے۔ ان سے لگ بھگ نصف صدی کی رفاقت رہی ہم ایک دوسرے سے دوستی، اخوت اور مشاورت کے رشتوں میں منسلک رہے۔ بقول فرہاد زیدی مرحوم ممتاز طاہر اور جمیل اطہر دوناموں کی ایک ہی شخصیت ہے۔ ان سے ہر روز کا رابطہ تھا۔ رحلت والے دن بھی ان کی فون کال آئی اور7 اور8 رمضان کی درمیانی شب انہوں نے تہجد کی نماز ادا کی۔ تلاوت قرآن حکیم میں مصروف رہے اور سحری کے وقت جسم میں معمولی سی کپکپاہٹ ہوئی اور یہ کہتے ہوئے اور زبان پر کلمہ جاری کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے کہ میرے والد صاحب مجھے لینے آگئے ہیں۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا