مودی ایک جماعتی ریاست چاہتے‘ چند ججوں نے ان کو بچایا: امریکی اخبار
نیویارک (این این آئی) امریکی اخبارنے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو آہستہ آہستہ یک جماعتی ریاست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے بھارت 2024ءکے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ملک کے جمہوری اداروں پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ اگرچہ اسے ملکی عدلیہ سے تھوڑا سا جھٹکا لگتا ہے لیکن بھارت کے سیاسی تجزیہ کار، سفارت کار اور سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مودی کی پارٹی اپنے تحفظ کے لیے عدالتوں پر انحصارکرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی جتنے چیلنجز کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ راہول گاندھی کے معاملے پر کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں اب احتجاج کر رہی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں مختلف مناظر دیکھے گئے۔ راہل کی سزا سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ مودی حکومت انہیں پارلیمنٹ سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور آنے والے سالوں میں انہیں الیکشن لڑنے سے روکنا چاہتی ہے۔ فلاحی سکیمیں زیادہ تر وزیر اعظم کے نام پر ہیں جن کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ کچھ ججز، یا سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو حکومت کے ساتھ بہت نرمی برتتے دیکھا گیا۔ ان کے فیصلے یا تو حکومت کے حق میں ہوتے ہیں یا پھر کچھ ججوں کے فیصلوں نے مودی حکومت کو اہم آئینی چیلنجوں سے بچا لیا۔ ایسے ججوں کو پارلیمنٹ میں نشست سے نوازا گیا، جب کہ کچھ کو کمیشن میں عہدہ یا کسی ریاست کا گورنر بنا کر نوازا گیا۔ جنہوں نے تھوڑی سی بھی آزادی دکھانے کی کوشش کی، انہیں تبادلوں اور کیریئر میں جمود کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کی گئیں اور انہیں عدالتی مقدمات میں پھنسایا گیا جو برسوں تک چلے۔ بعض اوقات کچھ شکایتیں کاپی پیسٹ کی نظر آتی ہیں، سب کی ایک ہی شکایت۔ میڈیا بڑی حد تک بزدل ہو چکا ہے۔ سول سوسائٹی سے اختلاف کرنے والوں کو ہراساں یا خاموش کر دیا گیا ہے۔ اہم پالیسیوں پر پارلیمانی بحث ختم ہوچکی ہے۔ تاہم بی جے پی نے بار بار اس بات سے انکار کیا کہ ان کا عدالتی نظام پر کوئی اثر ہے۔