چیف جسٹس فل کورٹ بنائیں ، الگ ہونے والے جج شامل نہ کریں تو فیصلہ قبول ہوگا : شہباز شریف
اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ اے پی پی ) وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، چیف جسٹس فل کورٹ بنائیں اور خود کو اور الگ کرنے والے ججز کو شامل نہ کریں تو فیصلہ پوری قوم کو قبول ہو گا۔کاش اب بھی چیف جسٹس اس بات کاخیال کرے کہ اگروہ فل کورٹ کو بٹھا دیں تووہ فیصلہ پوری قوم کو ماننے میں ذرابھی دقت نہیں ہوگی، موجودہ بینچ سے فیصلہ کرانا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے گا، بائیکاٹ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن خود پہلے بینچ سے الگ ہو چکے تھے، وہ کیسے بینچ میں بیٹھ سکتے ہیں؟۔ شہباز شریف کا کہنا تھا پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، کاش آج بھی چیف جسٹس فل کورٹ بٹھا دیں اور جن ججز نے خود کو الگ کیا انہیں شامل نہ کریں تو ایسا فیصلہ پوری قوم کو قبول ہو گا، موجودہ بینچ سے فیصلہ کروانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، بینچ میں شامل ایک جج پر سنگین الزامات ہیں، کرپشن کے الزامات والے جج کو بینچ میں شامل کر کے چیف جسٹس کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا میں نے چند دن پہلے ایوان کو اپنی معروضات پیش کی تھیں، چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اسمبلی میں کئی لوگ جو جیلیں کاٹ رہے تھے اسمبلی میں تقریریں کر رہے ہیں، نظریے کے لیے جیل کاٹنے سے تاریخ بھری پڑی ہے، میں نے کسی کریمنل کیس میں جیل نہیں کاٹی۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ عمران نیازی کے پاس اور کوئی کام کرنے کو نہیں تھا، عمران نیازی کے پاس صرف ایک سوچ تھی کہ کسی طرح اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جائے، عمران نیازی نے مجھے دو بار جیل بھجوایا اور تیسری مرتبہ پوری تیاری میں تھا، پہلی بار جیل کاٹی تو ہائیکورٹ نے میرٹ پر مجھے ضمانت دی، عمران خان نے اسے سپریم کورٹ تک چیلنج کروایا، دوسری بار عمران نیازی نے نیب کے گٹھ جوڑ سے مجھے جیل بھجوایا، میرا جرم یہ تھا کہ میں قائد حزب اختلاف تھا، میرا جرم یہ تھا کہ میں عمران خان کی غلط کاریوں کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز اٹھاتا تھا، آج میں اس ایوان میں ہوں تو کیا یہ بے توقیری کی بات ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ بینچ سے فیصلہ کرانا انصاف کے تقاضوں کے 100 فیصد منافی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کے دوست وکیل نعیم بخاری نے میری ضمانت خارج کرنے کیلئے پٹیشن دائر کی تھی، جج صاحب کے ریمارکس پر نعیم بخاری عدالت سے دم دبا کر بھاگ گئے تھے، عمران نیازی نے نیب گٹھ جوڑ کے ذریعے مجھے جیل بھجوایا، لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے دوسرے کیس میں مجھے ضمانت دی، میرٹ پر رہا ہو کر آج ایوان کے سامنے موجود ہوں۔ کیا اپنا پورا مقدمہ لڑ کر رہا ہونا شرم کی بات ہے؟۔ آج اس معزز ایوان میں سر اٹھا کر بات کر سکتا ہوں، کیا یہ بے توقیری یا عزت کی بات ہے۔
اسلام آباد( خبر نگار خصوصی+ خبر نگار +اے پی پی ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ریاست کیلئے اگر اپنی سیاست قربان کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کریں گے، ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پیشگی تسلیم کرلیں لیکن اب آخری شرط پر بات چیت جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں لیڈیز پرس اور موبائل فون باہر رکھوا لیے گئے۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ ملک کو مشکل حالات سے نکالا، حالات گھمبیر ہیں لیکن ہماری نیت صاف ہے ان شاءاللہ حالات بہتر ہوں گے وقت آئے گا حالات بدل جائیں گے یہ میرا ایمان ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا کہ ملک کو سیلاب کی تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، 100 ارب روپے صرف وفاق سے سیلاب متاثرین کو دئیے گئے، ہم نے 10 کروڑ غریب خاندانوں کو مفت آٹا فراہم کرنے کا آغاز کیا، پنجاب، خیبر پی کے اور اسلام آباد میں غریبوں کو رمضان میں مفت آٹا فراہم کر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے ہاتھ پاو¿ں باندھے ہوئے ہیں، پچھلی حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے مہنگائی کی لہریں آ رہی ہیں، ہم نے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط مان لی گئی ہیں تاہم اب آئی ایم ایف کی آخری شرط پر بات چیت جاری ہے، برادر ممالک پاکستان کی بڑی مدد کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کو معاشی دلدل میں پھنسا دیا، دوست ممالک کے خلاف سابق حکمرانوں نے بدزبانی کی، شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی بہتری کیلئے سیاسی استحکام لازم ہے، چین نے پاکستان کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کیلئے 2 ارب ڈالر نقد دیئے ہیں،کیونکہ اسے ادراک ہو چکا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، چین نے یہ سرکاری قرض دیا ہے، چین نے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، 450 ارب روپے ان چینی کمپنیوں کو واپس کرنے ہیں، کوئی اور ملک ہوتا تو وہ اس تاخیر پر ہمیں عالمی عدالت میں لے جا چکا ہوتا، یہ پیسہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے، چین کو 150 ارب دلوائے ہیں، عمران خان نیازی اور اس کے حواریوں نے یہ کہا کہ سی پیک کے منصوبوں میں 45 فیصد کرپشن ہوئی اور اس کا ذمہ دار مجھے قرار دیا، اس کے آڈٹ کا تقاضا کیا گیا جس کی وجہ سے ہر چیز کھٹائی میں پڑ گئی، اس منصوبہ کو بریکیں لگ گئیں۔ اسی مددگار دوست پر بھونڈے الزامات لگائے گئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایک انفرادی شخص کا حکومت پاکستان کی پالیسی سے کیا تعلق؟ عمران خان نے پاکستان کو مشکلات میں مبتلا کیا، پاکستان کی ساکھ داو¿ پر لگا دی، عمران خان نے سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط کیے پھر خود خلاف ورزی کرکے اس پروگرام کو معطل کر دیا، عمران خان نے آئی ایم ایف پروگرام ناکام بنانے کی سازش کی، عمران خان کے وزیر رنگے ہاتھوں سازش کرتے پکڑے گئے۔ انہوں نے آج کل اسرائیل سے تجارت سے متعلق پھیلی ہوئی افواہوں پر کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے جو قابل مذمت ہے، فلسطینیوں کو حق ملنے تک پاکستان اپنے اصولی موقف پر کاربند رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان دور میں ججوں کو دھمکیاں ملیں، ریفرنس دائر ہوئے، عدلیہ کا ہماری قیادت اور ارکان کے ساتھ رویہ کچھ اور تھا، انہوں نے کہاکہ آج ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں بتایا گیا کہ عمران نیازی کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈرنہیں ہے، یہ بات ہے تونواز شریف کی بیٹی مریم نواز بھی پبلک آفس ہولڈر نہیں تھی، اس کولاہورکے کوٹ لکھپت جیل سے کیوں گرفتارکیاگیا؟یہ دوہرامعیار ملک کی جڑوں کوہلاکررکھ دیں گا، اب بھی وقت ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے ورنہ دیر ہوجائے گی، یہ ترازو کے پلڑوں کا فرق ہے۔اب عدلیہ پر بھرپور وار کرنے والا عمران نیازی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی کو بیچنے سے بڑا کوئی دھبہ اور اس سے بڑی شرمناک بات پاکستان کے لئے کوئی نہیں ہوسکتی تھا۔ انہوں نے اراکین کو ہدایت کی کہ انہیں اسلام آباد میں اپنی موجودگی یقینی بنانی ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف سے ارکانِ قومی اسمبلی نور الحسن تنویر اور علی وزیرنے الگ الگ ملاقات کی۔