• news
  • image

رام نوامی کی قیامت 

کئی عشروں کے بعد بھارت میں رام نوامی کا تہوار مسلمانوں پر عذاب بن کر نازل ہوا۔ یہ سری رام چندرجی کی پیدائش کا دن ہے۔ کم سے کم چھ ریاستوں میں سنگ پریوار نے بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر حملے کئے۔ مغربی بنگال، بہار، یوپی، مہاراشٹر، گجرات اور کرناٹک میں رام نوامی کے جلوسوں نے مسجدیں نذر آتش کیں، درگاہوں اور اور مسجدوں پر پتھراﺅکیا اور مسلمانوں کے محلوں، دکانوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کیا۔ کئی مدرسے بھی جلا دئیے گئے۔ سسرام (بہار) میں مسلمانوں کو ان کے محلوں اور کالونیوںسے نکال دیا گیا اور وہ دوسرے علاقوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دئیے گئے۔ مسجدوں کے سامنے فحش اور بازاری نغمے بجائے گئے، جلسوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی دھمکیاں دی گئیں، مسلمانوں کو رکشوں سے نکال کر مارا پیٹا گیا۔ ایک جگہ ایک نوجوان مسلمان کو درخت سے باندھ دیا گیا، اس طرح کہ اس کے ہاتھ پیچھے رسیوں سے جکڑ دئیے گئے، پھر اس کی پٹائی کی۔ تمام دن اور رات کے کچھ حصے تک وہ اسی طرح بندھا رہا۔ تین مقامات پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ ان کی تعداد چار سے زیادہ ہے۔ ایسے نغمے بجائے گئے کہ کتا مت مارو، مسلمان کو مارو۔ ہندو راشٹر بنائیں گے، مسلوں کو بھگائیں گے کے نعرے مارے گئے۔ بہت سے مقامات پر مسلمانوں کی مساجد، مدرسے اور درجنوں گھر سرکار نے تجاوزات کے نام پر مسمار کر دئیے۔ مزاحمت کرنے والوںکو بری طرح پیٹا گیا۔ دو مقامات پر مسلمانوں کے پورے کے پورے محلے ناجائز قرار دے کر گرا دئیے گئے۔ 
یہ سب بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں ہوا۔ پولیس نے اگر کہیں حملہ آوروں کو پکڑا بھی تو چند گھنٹوں بعد یا اگلے روز رہا کر دیا گیا۔ کئی شہروں میں رام نوامی کے جلوس مقررہ راستے سے ہٹ کر مسلمانوں کے محلّے میں داخل ہوئے۔ مغربی بنگال کے شہر ھاوڑہ (جو کلکتہ کا جڑواں ہے) میں رام نوامی کے اشعال انگیز نعروں پر خود مخالف ہندوﺅںنے پتھراﺅ کیا۔ سنگ پریوار نے اس کا بدلا بھی مسلمانوں سے لیا۔ ایک مدرسہ اور لائبریری بہار شریف میں بھی نذر آتش ہوئی اور تو اور، نیپال میں بھی پہلی مرتبہ سیوک سنگیوں نے مساجد پر حملے کئے۔ 
کبھی پاکستانی میڈیا میں یہ اور اسی طرح کی دوسری خبریں نمایاں جگہ پاتی تھیں۔ ان دنوں ”عمرانی بحران“ نے میڈیا کو گھیر رکھا ہے۔ تمام جگہ اور وقت اسی بحران کی نذر ہے۔ کچھ وقت بچتا ہے تو فیشن ماڈلز اور اداکاروں کی خبریں لے جاتی ہیں۔ فلاں اداکارہ نے کس رنگ کا لباس پہن کر افطاری کی، افطار میں کیا کھایا (یہ البتہ نہیں بتایا جاتا کہ دن بھر میں کتنی افطاریاں کیں)۔
______________
جو غیر مسلم پاکستان میں قتل ہوئے، ان میں پشاور کا ایک نیک دل سکھ دیال سنگھ بھی تھا۔اس نے مسلمانوں سے یکجہتی ظاہر کرنے اور خداترسی کے لیے رمضان کے دوران اپنی دکان پر موجود تمام اشیاءصرف سستی کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر اس کی گراھکی بڑھ گئی تھی۔ اسی بات پر اسے قتل کر دیا گیا۔ ہمارا رمضان ہے، ہم چیزیں سستی نہیں کرتے تو تمہیں یہ جرا¿ت کیوں ہوئی، لو مزا چکھو۔ 
______________
پی ٹی آئی نے سیاسی تنہائی کو توڑنے کے لیے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا اور صوبائی انتخابات30 اپریل تک کرانے کے اپنے مطالبے کے لیے حمایت مانگی۔ 
جماعت اسلامی نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم صوبائی اور قومی انتخابات کے ایک ہی تاریخ کو کروانے کے حامی ہیں۔ جماعت نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ 8 اکتوبر کو الیکشن کی حامی ہے لیکن عملاً مطالبہ یہی تھا۔ دوسرا رابطہ ایم کیو ایم سے کیا گیا۔ اس نے اچھی چائے پلائی اور تپاک سے رخصت کیا۔ 
پی ٹی آئی کو یہ سوچنے کی فرصت کہاں ہو گی کہ یہ سیاسی تنہائی خود اس نے ہی پیدا کی ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو (کم از کم اس کی مرکزی قیادت کی حد تک) پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے ریشمی گوشہ رکھتی ہے اور حالات نے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ وہ بھی اس کی اس مشکل گھڑی میں ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ باجوہ رخصت ہوئے، فیض بھی گئے، میڈیا میں بھی پرجوش محبت پہلے سے کچھ کم ہوئی۔ عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ اب عدلیہ ہی واحد سہارا ہے۔ پاک فوج زندہ باد کی جگہ عدلیہ زندہ باد کے نعروں نے لے لی ہے۔ 
______________
خان صاحب نے سیاسی جماعتوں اور حکمران اتحاد سے مذاکرات کے ارادے سے پھر یوٹرن لے لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بجھی ہوئی مسرت والے لہجے میں فرمایا کہ فوج کے ساتھ میرا کوئی رابطہ نہیں۔ 
خان صاحب اپنی لندن امریکہ والی شاخوں کے کارناموں کو بھی نظر میں رکھیں۔ وہ کیا نعرے لگاتے ہیں، کسے گالیاں دیتے ہیں، کس کی تصویروں کو پاﺅں تلے مسلتے اور ان پر جوتے برساتے ہیں۔ اب براہ کرام وہ یہ تو مت کہیں کہ یہ سارا کچھ میرے علم یا مرضی کے بغیر ہو رہا ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، فوج سے مذاکرات کا ”مطالبہ“ کر رہے ہیںتو یہ ان کے ”بلند حوصلہ“ ہونے کی دلیل ہے۔ 
یہ سوال کرنے کی البتہ ضرورت نہیں کہ فوج سے مذاکرات میں ان کا”نکتہ¿ مذاکرات “ کیا ہو گا؟ وہاں جواب میں یہ نغمہ بھی سنایا جا سکتا ہے کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ!
______________
خان صاحب کے اس بیان پر بہت لے دے ہو رہی ہے کہ وہ کسی آمر کی گود میں بیٹھ کر نہیں آئے۔ بعضے لوگ تو اس کا تمسخر بھی اڑا رہے ہیں۔ ناہنجاری سی ناہنجاری ہے۔ 
خان صاحب نے غلط کیا کہا۔ وہ جنرل مشرف کی گود میں بیٹھ کر سیاست میں آئے اور مشرف قطعاً آمر نہیں تھے۔ وہ تو ”حقیقی جمہوریت“ تھے، جعلی SHAME جمہوریت کو ختم کر کے آئے تھے۔ اسی لیے عمران خان نے ان کے ریفرنڈم کی مدار المہامی قبول کی تھی۔ بعدازاں ان کے دھرنے کو اس وقت کے چیف نے سپانسر کیا تو کیا غلط کیا۔ وہ بھی حقیقی جمہوریت کے علمبردار تھے۔ مزید بعدازاں وہ باجوہ اور فیض کی گود میں نہیں، ان کے کندھوں پر براجمان ہو کر اقتدار پر ”انسٹال“ ہوئے، چنانچہ اس باب میں گود کی بات کرنا تو ویسے ہی غلط ہے، گود اور کندھوں کا فرق ملحوظ رکھیں اور یہ ہر دو حضرات حقیقی نہیں ،حقیقی ترین جمہوریت کے علمبردار تھے، ان کی جمہوریت پرستی پر عمران خان کے خطابات ومدحیات موجود ہیں، جب چاہے ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ لہٰذا براہ کرم مضحکہ اڑانے سے گریز فرمائیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن