3 رکنی سپریم کورٹ کا فیصلہ آرڈر آف دی کورٹ یا انصاف کا قتل؟
محمد اعظم گِل
chazamgill@gmail.com
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التواء سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیاہے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کے التوا کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غیرقانونی اور غیر آئینی ہے۔ پولنگ 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوگی۔عدالت عظمی نے گزشتہ روز وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کیلئے منگل تک مہلت دی تھی، جس پر ادارے نے سیکیورٹی معاملات اور خدشات سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت عظمی میں پیش کردی۔ عدالت عظمی نے سیکیورٹی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے قرآن کی آیت پڑھ کر فیصلہ سنانے کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔عدالت عظمی نے الیکشن کمیشن کا انتخابات 8 اکتوبر کو کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول بحال کردیا گیا، جس میں چند تبدیلیاں کی جائیں گی،عدالت نے قرار دیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو انتخابی تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا تب انتخابی عمل پانچویں مرحلے پر تھا، الیکشن کمیشن کے آرڈر کے باعث 13 دن ضائع ہوگئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں اب الیکشن 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوں گے، الیکشن شیڈول پر جتنا عمل ہوچکا وہ برقرار رہے گا،کاغذات نامزدگی کیخلاف اپیلیں 10 اپریل تک دائر ہوں گی۔عدالت عظمی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا حکم دیدیا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کئے جائیں، الیکشن کمیشن فنڈز ملنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لیا جائے گا، فنڈز نہ ملے تو متعلقہ حکام کو عدالت حکم جاری کرے گی۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے فنڈز کی کمی ہوئی تو کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق پنجاب کی نگراں کابینہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ 10 اپریل تک سیکیورٹی پلان الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔عدالتی فیصلے میں یکم مارچ کے حکم اور ججز کے اختلافی نوٹ کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ فیصلہ 3-4 کا ہونے کی دلیل خلاف قانون ہے، جسٹس فائز عیسی والے فیصلے کا کسی زیر التوا مقدمہ پر اطلاق نہیں ہوتا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق گورنر کے پی کے وکیل نے پیروی سے معذرت کرلی تھی، اس لئے اس پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جارہا، کے پی کے حوالے سے الگ سے کوئی درخواست آئی تو قانون کے مطابق جائزہ لیا جائے گا۔فیصلے آنے سے قبل پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس میں وزارت دفاع نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی تھی۔عدالت عظمی نے سیکریٹری دفاع کومنگل صبح تک رپورٹ جمع کرانے کیلئے مہلت دی تھی۔وزارتِ دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی دستیابی سے متعلق سربمہر رپورٹ چیف جسٹس کو چیمبر میں پیش کی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجاز الاحسن نے چیمبر میں رپورٹ کا جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے گزشتہ روز دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اگر ہم اس مقدمہ کی ہونے والی سماعتوں کا ذکر کریں تو 27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔28 مارچ کو سپریم کورٹ میں اس مقدمہ پر دوسری سماعت ہوئی چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا تھا کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا۔ جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دیدی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟ تیسری سماعت پر سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگی تھی۔30 مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا عدالتی عملے کی جانب سے اعلان کیا گیاتھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بینچ 31 مارچ کو کریگا۔31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ 3 اپریل بروز پیر کو ہونے والی چھٹی اورآخری سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو عدالت نے ان سے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ سے متعلق استفسار کیاجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔تاہم فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا تھا کہ ہم کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا، ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔بعد ازاں چھے سماعتوں کے مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو منگل کے روز سنا دیا گیا۔آخری سماعت پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کسی کے پاس الیکشن التوا کا اختیار نہیں،صرف عدالت تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں کوئی آئین سے بالا تر نہیں۔آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں۔فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے تھے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر عدالتی کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔سپریم کورٹ نے حکومتی سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننے سے انکار کر دیا۔دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے فیصلے کیخلاف مسلم لیگ ن کے وکلا نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کیامسلم لیگ ن کے وکلا کی جانب سے احتجاج میں اقلیتی فیصلہ نا منظور کے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔مظاہرے میں مشیر داخلہ عطا تارڑ سمیت دیگرعہدے داروں نے بھی شرکت کی۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کرسکتا ہوں۔ فیصلے سے سیاسی اور آئینی بحران مزید سنگین ہوگا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیرقانون اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ 3 رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں، بارکو نسلز کے مطالبے کے باجود فیصلہ دیا، سب نے فل کورٹ میں اس کیس کی سماعت کا مطالبہ کیا کہ اس کیلئے فیصلہ اجتماعی طور پرکیا جانا چاہیے تھا۔اس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں وزیر قانون نے کہا کہ بینچ چاروں صوبوں کے ججز پرمشتمل ہونا چاہئے، ایک صوبے سے ججز کا بینچ ایسا لگ رہا ہے جیسے تخت لاہور کا راج ہے۔