تحریک انصاف اور حکمران اتحاد میں نظریہ ضرورت اور جوڈیشل مرڈر کی بازگشت
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخاب کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر جہاں پاکستان تحریک انصاف خوشیاں منا رہی ہے اور اس فیصلے کو آئین اور قانون کی فتح قرار دے رہی ہے وہیں حکومت اور اس میں شامل جماعتیں اس فیصلے کو 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے موقع پر ایک اور عدالتی قتل قرار دے رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ آج کے دن پارلیمنٹ کا عدالتی قتل کیا گیا ہے ،وزیر اعظم شہباز شریف کا کہناہے کہ 4 اپریل کو ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا، آج اسی تاریخ کو عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے،وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کابینہ میں فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا جو ریفرنس 12 سال سے پڑا ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے اور اس حوالے سے فل کورٹ بیٹھے اور فیصلہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا سمجھتی ہے کہ یہ 1973 کے متفقہ آئین کے بانیوں میں شامل ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا ایک عدالتی قتل تھا، ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دینا پاکستان کی تاریخی خدمت تھی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اگر میں غلط نہیں تو فیصلہ کرنے والے ایک جج نے بھی بعد میں اپنی یادداشت میں اس بارے میں اعتراف کرلیاتھا۔
فیصلے پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔فوادچوہدری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کے انعقاد کو بنیادی آئینی ضرورت قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن کو بنیادی آئینی حق بدلنے کا کوئی اختیار نہیں۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالتِ عظمی نے آج نظریہ ضرورت کو دفن کردیا اور آئین کے تقدس کو بحال کردیا، آج سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایمرجنسی دفن، نظریہ ضرورت دفن، آئین زندہ باد۔انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر اور نظریہ ضرورت کے پیروکاروں کو شکست ہوئی ہے، شفاف انتخابات کے لیے تمام جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان کو دوسری مرتبہ وزیراعظم بنانے کی منصوبہ بندی کرلو، پنجاب اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہوگی، عمران خان نے خوف کا بت توڑا اور آگے بڑھے۔انہوں نے کہا کہ جب ہمارے خلاف فیصلہ آیا تو ہم نے تسلیم کیا، ہم نے ججوں کو دھمکیاں نہیں دیں۔اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پنجاب میں 30 اپریل کے بجائے اکتوبر میں الیکشن کرانے کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پنجاب کی نگراں اور وفاقی حکومت کے تمام عہدیداروں کو الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کا پابند کیا، عدالتی حکم کے تحت وفاقی حکومت الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کو 20 ارب روپے فراہم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ فنڈز کی فراہمی میں تاخیر اور نافرمانی پر عدالت کارروائی کرے گی، آئی جی پولیس، آرمڈ فورسز اور رینجرز الیکشن کے لیے سیکیورٹی فراہم کرے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب کے الیکشن کا فیصلہ سنا دیا ہے، صوبے میں 14 مئی کو الیکشن ہوں گے، ہم ڈائیلاگ کے لیے اب بھی تیار ہیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ 2018 میں جو کام لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید، چیف جسٹس (ر)آصف سعید کھوسہ اور چیف جسٹس (ر)ثاقب نثار نے انجام دیا وہ ذمہ داری اب اس بینچ نے اٹھا لی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلہ مسترد کردینا کافی نہیں ہے، آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔مریم نواز نے کہا کہ اس خوفناک اور ڈھٹائی سے کی گئی سہولت کاری اور ون مین شو کیخلاف سپریم کورٹ کی اکثریت نے بغاوت کردی۔ن لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ اس سہولت کاری کو اپنے آئینی اور قانونی ہاتھوں سے روک دے۔وفاقی وزیر ہوابازی و ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ہمارے مقدمات میں مخصوص ججوں کو بٹھایا جاتا ہے، دوہرا معیار نہیں چلے گا، ایک ہی معیار قائم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس ناانصافی پر چپ نہیں رہے گی، لگتا ہے ایکسٹنشن کا عذاب اب کہیں اور بھی جا رہا ہے۔کیا گارنٹی ہے کہ یہ الیکشن ہوجائیں تو سب یہ نتائج مانیں گے؟سعد رفیق نے کہا کہ 25 اراکین کی نااہلی کے فیصلے سے بگاڑ پیدا کیا گیا، کن کو سیاسی طور پر فارغ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ کیا یہاں پر ایسی کوئی جماعت ہے جس کو آپ فارغ کر سکتے ہیں؟وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم تصادم نہیں چاہتے، 2018 کے الیکشن کا ری پلے نہیں چاہتے۔وزیر مواصلات مولانااسعدمحمود نے کہا کہ اپنی حد میں رہ کر فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے لیکن انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرنا جانبدارانہ فیصلہ ہے جو سیاسی جماعتوں کو قطعا قبول نہیں ۔ آئین نے ہمیں جمہوری تحفظ دیاہے، ہم نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے ، ہم نے جیلیں کاٹیں، ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ جوڈیشل مارشل لا کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں۔ ہم ایسے فیصلے تسلیم نہیں کرتے ، عدلیہ میں سیاسی جماعتوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اتفاق پیدا نہیں کرتیں تو انہیں اپنے گریبان میں بھی دیکھنا ہو گا، انہوں نے عدلیہ کو تقسیم کیا، انہوں نے ایک بحران اور تقسیم کی بنیاد رکھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے آبائو اجداد نے ہر دور میں آمروں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا، ہمیں اپنے اکابرین سے جو آئین اور جمہوریت ورثہ میں ملی ہے اسے برقرار رکھیں گے، اس فیصلہ کو پاکستان میں نافذ العمل نہیں ہونے دیں گے، آئین و قانون ہمیں جہاں تک اختیار دیتا ہے ہم لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ حکومت کا حق ہی اس معاملہ پر سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے۔ وزیراعظم ،آئین اور پارلیمان کو کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ جو گناہ سیاستدانوں نے نہیں کئے ہوتے انہیں بھی اچھالا جاتا ہے۔ آج ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، عدالت آج یہ کہہ رہی ہے کہ عمران خان سے بات کرو، ملک میں عسکریت پسندی کے پروان چڑھنے کا کبھی ازخودنوٹس نہیں لیا گیا۔ مذہبی حق تلفی پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ اقلیتوں کے حقوق کیلئے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہم اس آئین اور جمہوریت کیلئے وزیراعظم کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہیں، ہم قانونی اور آئینی جنگ لڑ رہے ہیں ، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کہنا ہے کہ آئین شکن کون ہے سب کو پتہ ہے یہ حق کی جنگ ہے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے تنقید کے نشتر اس وقت اعلی عدلیہ کی طرف ہیں اپنی عزت اپنے ہاتھ رکھیں ہماری توقیر بڑھے گی تو آپ کی بھی عزت بڑھے گی۔ فل کورٹ میں کیا قباحت تھی فل کورٹ بیٹھ جاتا تو کونسا آسمان گر پڑتا اس ملک میں مردم شماری ہورہی ہے اور آپ نے الیکشن کی بات کردی۔ نظریہ مصلحت کے تحت جو کچھ روا رکھا جارہا ہے پھر ہم سے نہ پوچھیں یہ بحران ہم نے کھڑا نہیں کیا ، آپ کو حل تلاش کرنا پڑے گا ،انہوں نے اس فیصلے کو 4اپریل ایک اور عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی قتل پارلیمنٹ کا ہوا ہے۔