نواز شریف شاہی مہمان....پھر سے
چلیئے قارئین، ایک قضیہ نمٹا تو سہی۔ یہ کہ کیا الیکشن 90 روز میں کروانا آئینی تقاضاہے؟۔ پی ٹی آئی اور ہم نوا تو یہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ آئینی تقاضا ہے، دوسرے کہتے تھے نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ دے کر بحث نمٹا دی۔ یہ کہ الیکشن 90 روز کے بعد بھی کرائے جا سکتے ہیں، پہلا فیصلہ /30 اپریل کو الیکشن کرانے کا تھا جو 90 دن سے دو تین ہفتے آگے کی تاریخ تھی، اب یہ تاریخ مزید دو ہفتے آگے چلی گئی ہے یعنی 90 روز والی پخ اب خیر سے موجود نہیں رہی اور کے پی کے اسمبلی کے انتخابات میں تو یہ تاریخ مزید آگے چلی گئی ہے یعنی توسیع درتوسیع۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ الیکشن کی تاریخ دینے اور ٹائم شیڈول بنانے پر الیکشن کمشن کی اجاری داری نہیں ہے، یہ کام دوسرے ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے، اگلے پانچ سال بعد ہم دیکھیں کہ آئی جی حضرات اپنے اپنے صوبوں میں انتخابی شیڈول مرتب فرما رہے ہوں۔ ایسا ہوا تو تعجب ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
_________________
سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے نعرہ مستانہ لگایا ہے کہ اب دیکھتا ہوں، کون اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔
”کون“ سے پتہ نہیں کیا مراد ہے۔ اگر حکومت ہے تو اس نے تین رکنی بنچ کا فیصلہ مسترد کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ وجود ہی نہیں رکھتا، وجود اس فیصلے کا ہے جو 3/4 کے تناسب سے جاری ہوا، یہ کہ الیکشن کمشن کے /8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کے اعلان کے خلاف ازخود نوٹس خارج کیا جاتا ہے۔
فیصلہ مسترد کرنے کا یہ حکومتی فیصلہ درست ہے یا نا درست، ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ ہمارا سوال تو فواد چودھری صاحب سے ہے۔ انہوں نے فرمایامیں ”کون“ کو دیکھ لوں گا۔ ”کون“ سامنے آ گیا، اب دیکھئے ، فواد چودھری یا ان کی پارٹی اس ”کون“ کو کب اور کیسے د یکھتی ہے، انتظار رہے گا۔
انتظار رہنے کی بنیاد دراصل ایک شک ہے۔ ”کون“ نے پہلے بھی /30 اپریل والا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تھا اور فواد چودھری اس ”کون“ کو دیکھ لوں گا کی سان پر چڑھانا بھول گئے تھے۔ شک یہ ہے کہ کہیں اس بار بھی نہ بھول جائیں__ بہرحال، انتظار رہے گا۔
_________________
سابق وزیر اعظم نواز شریف سعودی حکومت کی دعوت پر غالباً /8 اپریل کو سعودی عرب جا رہے ہیں۔ وہ رمضان کا آخری عشرہ وہیں گزاریں گے اور اس دوران انہیں سعودیہ میں شاہی مہمان کادرجہ دیا جائے گا اور انہیں شاہی پروٹوکول دیا جائے گا۔
اس ایک خبر سے کئی بھولی کہانیاں یاد آ گئیں۔ محض بھولی کہانیاں، بھولی بسری نہیں کیونکہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ سعودی عرب نواز شریف سے ناراض ہو گیا تھا بلکہ سچ پوچھئے تو ناراض کر دیا گیا تھا۔
کہانی یوں ہوئی کہ سعودی عرب نے یمن جنگ میں پاک فوج کے دستے طلب کئے۔ نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف سے پوچھا، انہوں نے ہاں کر دی۔ جب نواز شریف نے سرکاری طور پر ہاں کر دی تو چیف نے ناں کر دی اور عمران خان کی جماعت پارلیمنٹ میں قرارداد لے آئی جس میں سعودی فرمائش کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ صرف مسترد کیا گیا ہوتا تب بھی ایک بات ہوتی لیکن غیر ضروری طور پر ایک پیرا بھی اس قرارداد میں شامل کروا دیا گیا جس میں سعودی عرب پر تنقید ہی نہیں، بعض حوالوں سے اس کا مضحکہ بھی اڑایا گیا تھا۔ ریاستی وسائل سے میڈیا اور عوام میں ایسی فضا بنائی گئی کہ قرارداد پاس نہ ہوئی تو حکومت کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو شاہد خاقان کے دور میں ختم نبوت کے حلف نامے میں الفاظ کے ہیر پھیر کی بنیاد پر ایک آتش گیر ماحول کے نتیجے میں ہوا۔ حکومت قرارداد کی مخالفت کی جرا¿ت سے محروم ہو گئی، قرارداد پاس ہو گئی اور سعودی عرب نواز شریف سے، بجاطور پر، ناراض ہو گیا اور ریاستی حلقوں کے اس منصوبے کا حامی بن گیا جس کے تحت نواز شریف کو تاحیات نااہل کر کے پہلے اقتدار بدر ، پھر ملک بدر کرنا مقصود تھا۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کو سعودی عرب کا شاہی دورہ کرا کے پاکستان کے عوام کو بھی پیغام دے دیا گیاکہ نواز شریف کو بھول جاﺅ، اب عمران خان ”بادشاہ“ بنے گا، ابتدائی طور پر دس سال کے لیے، دس سال پورے ہونے کے بعد دیکھیں گے کہ کتنی توسیع اور دینی ہے۔
منصوبہ کامیاب ہوا لیکن بیچ میں ایک عجوبہ قسم کا حادثہ ہو گیا۔ سعودی سرزمین پر بیٹھ کر، مہمان خانے کے اندر خان صاحب نے سعودی ولی عہد اور بادشاہ کا مذاق اڑایا اور کئی القابات انہیں عطا کر ڈالے۔ سب سے مہذب اور قابل اشاعت لقب یہ تھا کہ ہر دو حضرات مسخرے ہیں۔
ازاں بعد عمران خان شاہی طیارے پر سوار ہو کر امریکہ کے لیے نکلے۔ اسی دوران گفتگو کا ترجمہ شاہ کو پہنچا دیا گیا۔فوری حکم ہوا ، شاہی طیارہ واپس، عمران خان کو ایسی ”عدیم النظیر“ خفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تصور سے باہر ہے، ساتھ ہی ریاست کے لیے بھی شرمندگی سے بڑھ کر والا معاملہ پیدا ہو گیا۔
خبر ہے کہ نواز شریف کو سعودی عرب لانے کے لیے وہی شاہی طیارہ لندن جائے گا جس سے خان صاحب کو ڈنڈا ڈولی کر کے اتارا گیا تھا۔ ایسی خبروں کو ”عبرت کی کہانی“ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔
نواز شریف اپنی صاحبزادی سمیت دس دن کا شاہی دورہ ”انجوائے“ کریں گے اور اس بات کا اشارہ دیا جائے گا کہ عمران کو بھول جاﺅ، اب عوام نواز شریف کے زیر سایہ آنے کی تیاری کریں__ شاید!
_________________
عمران خان نے پاکستان کو دو آپشنز دی ہیں۔ یا ترکی بن جائے یا میانمار۔ تیسری آپشن اگرچہ ہے لیکن انہوں نے نہیں دی۔
میانمار کی آپشن پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے، ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں خان صاحب نے پاکستان کو میانمار بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ فوج بھی اپنی، پولیس بھی اپنی ، نیب بھی اپنا، عدلیہ بھی اپنی (خود انہی کے بیانات تھے۔ لیکن میانمار بنانے کی دھن میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے، یعنی اللہ کرے زور شباب اور زیادہ والا معاملہ ہو گیا :
تھا چار میل دور میرے محبوب کا مکان
دس میل تک نکل گیا زور شباب میں
نتیجہ یہ کہ دھڑام سے نیچے آ گرے۔ لیجئے جناب، میانمار کا آپشن تو ختم ہوا۔ رہا ترکی کا آپشن تو اس سے واضح نہیں ہوتا کہ مدعا کیا ہے۔ سویلین بالادستی اگر مراد ہے تو اس کا سفر شروعات کر چکا۔ اصل آپشن جو واحد قابل عمل ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میانمار بنے گا نہ ترکی، وہ پاکستان ہی بنے گا۔ وہ پاکستان جسے طالع آزما فوجی آمروں نے اور ان کے عمران اور شوکت عزیز جیسے لاڈلوں نے پاکستان بننے ہی نہ دیا۔ اللہ بھلا کرے، اب پاکستان، پاکستان ہی بنے گا۔ آپ کے آپشنز دینے سے وہ بات اب نہیں رکے گی جو چل نکلی ہے۔
_________________