میانہ روی اور دانش مندی وزیراعظم شہباز کا تشخص
فیصل ادریس بٹ
سپریم کورٹ کی جانب سے 14 مئی 2023ء کو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ آنے کے بعد ملک میں سیاسی صورتحال انتہائی ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ تین رکنی بنچ کا فیصلہ جہاں پارلیمنٹ کی قرارداد سے متصادم ہے۔ آنے والے چند روز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سول حکومت کے سپہ سالار وزیراعظم میاں شہبازشریف کا ماضی اس چیز کا گواہ ہے کہ وہ انتہائی میانہ روی اور دانش مندی کے ساتھ حکومت اور سیاست کو چلانے کے قائل ہیں۔ شہبازشریف انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرہ رکنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اپنی منشا کے برعکس افہام و تفہیم سے ملکی حکومت کا ٹائٹینک لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ شہبازشریف کے راستے میں بے پناہ رکاوٹیں مشکلات آرہی ہیں لیکن امید کی جاتی ہے کہ وہ ان مشکلات کو نبردآزما ہو کر نبٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اندرونی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ گرتی ملکی معیشت، مہنگائی، عدلیہ حکومتی تصادم، دہشت گردی کے جن کو قابو کر کے بوتل میں بند کرنے کے ٹاسک کے علاوہ اُن کو بیرونی دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
شہبازشریف جب پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ خدمات انجام دیتے رہے ہیں اُس وقت اُن کے فلاحی و عوامی منصوبوں ،گڈ گورننس، بہترین ایڈمنسٹریشن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وفاق میں حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں اپنی طبیعت کے برعکس اتحادی جماعتوں کا لحاظ بھی رکھنا پڑتا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا، شہبازشریف کی کارکردگی کا معتقد نظر آتا ہے جبکہ اندرون ملک میڈیا ہاؤسسز موجودہ حکومت کو درپیش ان گنت چیلنجز کے باوجود ٹف ٹائم دینے میں مشغول ہے حالانکہ لاء اینڈ آرڈر قانون اور اطلاعات و نشریات کے وزراء اپنے کپتان شہبازشریف کے شانہ بشانہ چلتے نظر آرہے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ موجودہ بحران میں اہم کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ، شہبازشریف کے ہراول دستہ کے طور پر فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ دن رات محنت کرتی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی بھی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ مریم اورنگزیب حکومت کے تعمیری فیصلوں کی تشہیر کے علاوہ پارٹی کی بھی ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ بطور وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات لمبا عرصہ خدمات انجام دینے والی محترمہ شاہیرہ شاہد جنہوں نے حال ہی میں اپنی سروس کی معراج گریڈ22حاصل کر لیا تھا، کو تبدیل کر کے محکمہ اطلاعات و نشریات کے انتہائی منجھے ہوئے قابل افسر سہیل علی خان کو بطور سیکرٹری اطلاعات و نشریات تعینات کیا گیا ہے۔ سہیل علی خان محکمہ ا طلاعات کے لئے عرصہ دراز سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ انتہائی پروفیشنل افسران کی فہرست میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں جس کے بعد انہیں ڈی جی ریڈیو تعینات کیا گیا۔ ریڈیو کے سیٹ اپ میں اپ گریڈیشن کیلئے عملی اقدامات کئے جس کے بعد انہیں ایم ڈی پی ٹی وی تعینات کردیا گیا۔ سہیل علی خان نے پی ٹی وی گرتی ساکھ کو مستحکم کرنے کے لئے انگنت اقدامات کئے جو تاحال جاری ہیں۔ سہیل علی خان کی وفاقی سیکرٹری تعیناتی میڈیا انڈسٹری میں ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کی لہر ہے۔سہیل علی خان ورکنگ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسسز کے مالکان کے ساتھ اعلیٰ روابط رکھتے ہیں۔ حکومت کے ان کرائسسز میں سہیل علی خان ہی وہ افسر ہیں جو عوام کے سامنے حکومت کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کر سکتے ہیں۔ سہیل علی خان کی ٹیم میں پرنسپل انفارمیشن افسر مبشر حسن، ڈی جی ریڈیو پاکستان طاہر حسن جو پاکستان ریڈیو کے لئے سسٹم اپ گریڈ کرنے میں مشغول ہیں اور اس بات کا اعادہ کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان ریڈیو کو خسارے سے نکال کر پرافٹ ایبل پروجکیٹ بنائیں گے۔ اگر بات کی جائے ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی محترمہ رئیسہ عادل کی تو وہ فیلڈ کا وسیع تجربہ رکھنے کی وجہ سے پی آئی او مبشر حسن کے کاموں میں اُن کے شانہ بشانہ شامل ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی لاہور شفقت عباس کا بھی تجربے کے حساب سے کوئی ثانی نہیں شفقت عباس نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ حکومتی خدمات انجام دی ہیں۔ حال ہی میں محکمہ اطلاعات کے سینئر افسران کی فارن پوسٹنگ کے لئے سو کے قریب سینئر و جونیئر افسران کے انٹرویوز منعقد کئے گئے ہیںجس میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات علی نواز ملک، ڈی جی آئی ڈی شفقت عباس، پی آئی او مبشر حسن، محترمہ رئیسہ عادل، ارم تنویر، طاہرہ سیدہ کے علاوہ منظور علی کے انٹرویوز ہوئے ہیں ۔ان میں سے سلیکٹ ہونے والے افسران کو مختلف ممالک میں پریس منسٹر، قونصلر، اتاشی تعینات کیا جائے گا۔ شفقت عباس، علی نواز ملک، رئیسہ عادل کے سلیکٹ ہونے کی صورت میں سہیل علی خان اپنے بہترین آفیسرز کی ٹیم سے محروم ہو جائیں گے۔ دیکھنا یہ کہ اب سہیل علی خان ان سینئر آفیسرز کو بیرون ملک تعیناتی کی اجازت دیں گے یا نہیں؟