سابق وزیراعظم کو سٹیٹس کے مطابق سکیورٹی ملنی چاہئے : اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے وزیر داخلہ کا دھمکی آمیز بیان اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سکیورٹی فراہمی سے متعلق کیس میں سابق وزیر اعظم کو دی جانے والی سکیورٹی رولز طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو بتائیں کہ سابق وزیر اعظم کی کیا سکیورٹی ہے، کتنی سکیورٹی ہے، رولز پیش کریں پھر آرڈر جاری کریں گے۔ عمران خان کے وکیل نے کہاکہ عمران اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں تو حاضری بنتی ہی نہیں، یہ تو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہے۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ اوہ سوری، یہ میرا کیس نہیں اس میں فیصل چوہدری وکیل ہیں۔ اس موقع پر معاون وکیل نے عدالت کو بتایاکہ فیصل چوہدری سپریم کورٹ میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزار سابق وزیر اعظم ہیں، سکیورٹی کا کیا قانون ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایکٹ 1975 ءکا ایکٹ ہے۔ وزیر اعظم کی سکیورٹی سے متعلق سیکشن 17، مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے گی، سابق وزیر اعظم کی سکیورٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔ سپیشل گزٹ کے ذریعے یہ قانون ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی سکیورٹی فراہم کی گئی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی عمران خان کو ایک بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں بلٹ پروف گاڑی پر نہیں آیا ابھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد سکیورٹی کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ شاید میری انگریزی کمزور ہے، 9 اپریل کے بعد کی گئی، دوبارہ پڑھ لیں جو نوٹیفکیشن ہوا تھا، یہ انسٹرکشن آپ دفتر سے لے کے آیا کریں، آپ پیچھے کھڑے افسر سے پوچھ رہے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسسمنٹ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ کیا سکیورٹی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزارت داخلہ میں کوئی پڑھا لکھا بندہ ہے۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود وزارت داخلہ کے نمائندہ نے عدالت کو بتایاکہ لائف ٹائم سکیورٹی دی جاتی ہے لیکن اس کا نوٹیفکیشن جاری ہونا تھا وہ ابھی تک نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی حد تک وفاقی حکومت دیکھتی ہے جبکہ باقی صوبوں میں اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ڈی آئی جی سکیورٹی دیکھتے ہیں، پنجاب کی حد تک آئی جی پنجاب معاملہ دیکھیں گے، جب تک عمران خان اسلام آباد تھے تب تک انہیں فول پروف سکیورٹی دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ فول یا اپریل فول کو چھوڑیں پھر کیا ہوا اب کیا صورتحال ہے۔ نمائندہ وزارت داخلہ نے کہاکہ عمران خان کو سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جنرلائز سکیورٹی کا آرڈر ہے تو وہ تو کرنا ہوتا ہے، درخواست گزار کے لیے کیا آرڈر ہے، بار بار پوچھ رہے ہیں کہ جب سابق وزیر اعظم کوئی بھی ہو جب وہ اسلام آباد آئیں گے تو کون دے گا۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ صوبوں میں سکیورٹی فراہم کی جارہی ہے ایک رٹ پٹیشن کے جواب میں۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیر آباد کا واقعہ ہوا ہے سب کے سامنے ہے، سلمان تاثیر کا واقعہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو قانون ہے وہ قانون ہے جو قانون میں لکھا ہے وہ سکیورٹی دیں، لاہور کو چھوڑ دیں اسلام آباد کا بتادیں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، یہ کیس بھی نمٹایا ہی جائے گا آپ کو بھی پتہ ہے، قانون قاعدہ جو بھی ہے وہ عدالت میں جمع کروا دیں، ایک قیدی اگر جیل میں ہے تو اس کے بھی حقوق ہیں، ہر شخص کے حقوق موجود ہیں، آج ہم جج ہیں کل ہم جج نہیں ہونگے، ویسٹ آج کیوں ہم سے آگے ہیں کیونکہ انکے رولز ہیں، ایسے نہیں کہ کل کوئی اپوزیشن میں ہو تو قانون بدل جائے اور جب حکومت میں آئے تو قانون اور ہو، پچھلی 2،3 بار جب خان کے کیس کی سماعت ہوئی تھی تو اس وقت فول پروف سیکیورٹی کے آرڈر کہاں ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ لیٹر عدالت میں پیش کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو جنرل لیٹر ہے، اس میں سابق وزیراعظم کا ذکر ہے، پیٹیشنر کے مخصوص نام سے لیٹر کہاں ہے، درخواست گزار وکیل نے کہاکہ سکیورٹی کا پلان نہیں تھا، وزیر آباد کا واقعہ ہوا ہے، اس عدالت سے آبزرویشن تھی سلمان تاثیر کے واقعہ کے حوالے سے کہ پیٹیشنر کی تسلی کے مطابق سیکورٹی ہو، چیف جسٹس نے کہاکہ افسوس ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں سرکار خود سے کیوں نہیں کرتی، کیوں عدالت آنا پڑتا ہے، تھریٹ الرٹ کے حوالے سے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے حوالے سے اسیسمنٹ کرنی ہو گی، جو جس کا قانونی حق ہے وہ اس کو ملنا چاہیے، سابق وزیراعظم کو اس کے سٹیٹس کے مطابق سیکورٹی ملنی چاہیے، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ اچھی مثالیں قائم کریں، عدالت نے سابق وزراءاعظم کو دی جانے والی سکیورٹی کے رولز طلب کرتے ہوئے کہاکہ رولز دیکھ کر مناسب حکم جاری کریں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے استثنی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 8 مقدمات میں عبوری ضمانت کی توسیع کردی۔ عمران خان کے وکیل نے عمران خان کے استثنی کی درخواست دائر کی اور کہاکہ وکلا نے تقریب میں وزیر اعظم شہباز شریف کو مدعو کررکھاہے، وزیراعظم شہباز شریف آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں آ رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ موجودہ وزیراعظم آ رہے ہیں تو سابقہ نہیں آ سکتے، سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں، ہماری استدعا ہے کہ عید کے بعد تک کا وقت دیدیا جائے، عمران خان عید کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے سرنڈر کر دینگے، چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی ایسا ریلیف نہیں دے سکتے جو کسی اور کو نہ دیا جا سکے، سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ عمران خان کے خلاف بہت سے کرمنل مقدمات درج ہو چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ امریکا کے سابق صدر تو عدالت پیش ہوئے اور فرد جرم کا سامنا کیا، عمران خان کے وکیل نے کہاکہ اس بحث میں نہیں جانا چاہتا فلڈ گیٹ کھل جائے گا، ایک سو چالیس کیس کس پر ہوتے ہیں؟، چیف جسٹس نے کہاکہ تو آپ ریکارڈ بنا رہے ہیں نا، عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ایک اور وزیر اعظم کے ساتھ وہ نہیں ہونا چاہیے جو ماضی میں ہوا، ہمیں ایک سابق وزیر اعظم کو لاحق خطرات کو ختم کرنا چاہیے، عید کے بعد کی ایک تاریخ دیں عمران خان آئیں گے، عمران خان عید کے بعد اس عدالت میں آئیں گے اسی دن ٹرائل کورٹ سرنڈر کر دیں گے، عید کے بعد دوسرے یا تیسرے ورکنگ ڈے تک ریلیف دے دیں، اتنے کیسز ہیں اور تفتیش بھی جوائن کرنی ہے، ابھی تک جے آئی ٹی نے تفتیش کیلئے نہیں بلایا، چیف جسٹس نے کہاکہ ماتحت عدالتوں میں بھی ڈیکورم برقرار رکھنا چاہیے، ابھی تو پندرہ رمضان ہے اور عید میں آدھا مہینہ ہے، ضمانت قبل از گرفتاری میں دو ہفتے کی ڈیٹ کیسے دیں؟۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون روسٹرم پر آ گئے اور کہاکہ سیکورٹی تھریٹ تو ان کو زندگی بھر رہیں گی،کروڑوں روپے سیکورٹی پر خرچ آتا ہے، یہ ایک ڈیٹ بتا دیں کہ کس تاریخ کو پیش ہوں گے۔ عمران خان کے وکیل نے کہاکہ معاشی بحران چل رہا ہے، سکیورٹی پر بے پناہ خرچ آتا ہے، تفتیش جوائن کرنا انا کا مسئلہ نہیں ہے،عام حالات میں تھانے جا کر تفتیش میں شامل ہوتے ہیں، ہم نے کہا ہے کہ سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دے دیتے ہیں، یہ بھی آپشن دی کہ الزامات کے جواب میں تحریری بیان جمع کرا دیتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ اگر آئندہ سماعت پر بھی نہیں آتے تو کیا ہو گا؟، چیف جسٹس نے کہاکہ ضمانت کے لیے پٹیشنر کا خود پیش ہونا ضروری ہے، اگر نہیں آتے تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، ہم پہلے سے آرڈر میں کچھ لکھ کر ہاتھ نہیں باندھا چاہتے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا اسیسمنٹ کمیٹی تھریٹ کا جائزہ لے کر سکیورٹی بڑھاتی ہے؟، آئی جی اسلام آباد نے مجھے بلٹ پروف گاڑی آفر کی تھی مگر میں نے منع کر دیا، اگر entitlement چار پولیس اہلکاروں کی ہو تو کیا تھریٹ ملنے پر سکیورٹی بڑھا دی جاتی ہے؟، آپ نے عمران خان کے لیے فول پروف سکیورٹی کا نوٹیفکیشن دکھایا ہے، آپ نے عمران خان کو بطور سابق وزیراعظم سیکورٹی نہیں دی، اس کو سیکورٹی واپس لینا ہی تصور کیا جائے گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی جی کے پاس اختیار ہے کہ وہ سیکورٹی میں اضافہ کر سکتے ہیں، عمران خان کو چاہئے کہ آنے سے قبل آگاہ کریں کہ کب یہاں آ رہے ہیں، وکیل نے کہاکہ آخری گزارش ہے کہ اٹھارہ اپریل کو ساڑھے گیارہ بجے کا وقت مقرر کر دیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اٹھارہ کو یہ درخواست نمٹا کر آپ کو پروٹیکشن دے دیں گے۔