• news

بارشیں، ژالہ باری ،گندم کے ہدف میں چار سے پانچ ملین ٹن کمی کا امکان

اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)ملک میں حالیہ بارشوں اور ژالہ باری کے باعث رواں سال گندم کی پیداوارمقرر کردہ ہدف میں تقریبا چار سے پانچ ملین ٹن شارٹ فال کا امکان ہے جس سے گند م اورآٹا کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بڑھ جائے گاجبکہ پہلے ہی ملکی معاشی صورتحال انتہائی ابتری کا شکار ہے،مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گندم کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا ۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے رواں سال گندم کا  2کروڑ 84ملین ٹن(28.4ملین ٹن)کا پیداواری ہدف مقرر کیاگیاہے اگر گندم کی متوقع پیداوار 26 ملین ٹن سے زائد رہتی یا پھر اس آس پاس رہتی ہے تو پھر بھی حکومت کو اگلے مالی سال میں کم از کم چار سے پانچ ملین ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔  جبکہ وزارت کی جانب سے یہ دعوی کیاجارہاہے گندم کی پیداوار تقریبا 27 ملین ٹن رہنے کی توقع ہے جبکہ اصل اعداد و شمار کٹائی کے بعد حاصل کیے جائیں گے۔  دوسری جانب حالیہ بارشوں اور ژالہ باری نے ملک میں تباہی مچا دی ہے شدید بارشوں اور ژالہ باری کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں پانچ سے دس من فی ایکڑز پیداوار کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ بالخصوص پنجاب میں گندم اس وقت تیاری کے آخری مراحلے میں بلکہ بعض علاقوں میں اپریل کے پہلے ہفتے میں کٹائی بھی شروع ہوجاتی ہے اگر بارشوں کا یہی سلسلہ جاری رہا تو زراعت کے شعبہ سے وابستہ افراد کا نقصان تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ ملک میں غذائی قلت پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے ۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ کسانوں نے متبادل فصلوں کی بوائی شروع کردی ہے جس کی وجہ سے پندرہ سے بیس فیصد گندم کی کاشت کا رقبہ بھی کم ہوا ہے ۔ جبکہ صوبہ سندھ کے بعض علاقوں میں بھی سیلاب کی وجہ سے گندم کی بوائی نہ ہوسکی تھی ۔ اس سلسلے میں کسان بورڈ پنجاب کے صدر حافظ حسین نے بتایاکہ اپریل کے ماہ میں پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدیدبارشوں اور ژالہ باری نے تباہی مچا دی ہے ژالہ باری سے گندم شدید متاثر ہوئی ہے جس سے اس پیداوار میں پانچ سے دس من فی ایکڑز کمی ہوگی پھر حکومت کو باہر سے گندم منگوانا پڑے گی ۔کٹائی کے موسم میں ہونے والی بارشوں نے نہ صرف فی ایکڑ گندم کی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنا بھی مشکل ہو گا۔  انہوںنے بتایاکہ ان بارشوں کی وجہ سے نہ صرف گندم کی فصل تباہ ہوئی بلکہ آم کے باغات ، سبزیاں ، چنے کی فصل ، خربوزوں ، تربوز، کینولا سمیت دیگر سیڈز کا نقصان ہوا ہے ۔ انہوںنے بتایاکہ ایک تو حکومت کی جانب سے گندم سپورٹ پرائس کا تاخیر سے اعلان کرنے سے بھی کسانوں ، کاشتکاروں کو بہت نقصان ہوا ہے ۔ کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے بتایاکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹے کے حصول کیلئے آج قوم کی مائیں ، بہنیں روزے کے ساتھ لائنوں میں لگی ہوتی ہیں اور متعدد اموات بھی ہوچکی ہیں ۔ یہ صرف حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں اگر یہی مراعات و سہولیات اپنے مقامی کاشتکاروں کی دی جائیں تو زراعت کا شعبہ ترقی کرسکتا ہے ہمیں بیرون ممالک کے کسانوں پر انحصار نہ کرناپڑے ۔ زرعی رقبہ جات پر سوسائٹیاں بنائی جارہی ہیں کوئی روکنے والانہیں ۔ ملک میں جاری بارشوں کے سلسلے کی وجہ سے پیداواری ہدف کو پور ا کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جو فصل گر جائے یا کٹائی ہوچکی تو اس پر بارشوں پر آجائے تو اس کے معیار اور مقدار میں کافی حدتک فرق آجاتا ہے۔ انہوںنے بتایاکہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900روپے فی من مقرر کی اگر اس کا اعلان ستمبر میں کیاجاتا تو کاشتکاروں کا مالی فائدہ پہنچتا ۔ انہوں نے بتایاکہ کسان اب متبادل فصلوں کی جانب چلا گیا ہے جس سے گندم کی کاشت میں کمی واقع ہوئی ہے اگر کسانوں کو بہتر سہولیات اور مراعات دی جاتی تو ملک میں کبھی بھی گندم کی قلت پیدا نہ ہو ۔ کھادوں اور ٹیوب ویلز کے بلز اور سپرے کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ عام کاشتکار کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں ۔واضح رہے کہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی بجائے ایمپورٹ کرنے والا ملک بن چکا ہے اب تک اس سال دو ارب ڈالرزکی 26لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی لی گئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن