فیصلے کی گھڑی کب آئے گی؟
جب بھی کسی فیصلے کا وقت آتاہے اورحالات بے قابو ہونے لگتے ہیں توتبصروں ،مذاکروں، تجزیوںاور تنقیدوں کے تمام بھونپو بجنے لگتے ہیں اور ہر ایک بھوپنو کے باجے سے یا ڈفلی کی دھب دھب سے مختلف آوازیں اور سر نکلتے ہیں۔ اپنی اپنی بولی میں ہر کوئی بیان بازی کر رہا ہوتا ہے۔ اگر اس کی بجائے ہم اپنی بات میں وزن پیدا کریں، بات کرنے سے پہلے تحقیق کر لیں اور پھر مذہب،معاشرتی روایت، اخلاقیات اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کریں تو شاید سننے والے کو بھی اچھا لگے، میڈیا پہ بھی اچھا اور مہذب گفتگو سننے کا موقع ملے اور اخبارات میں کیچڑ اچھالنے اور الزام تراشیوں کی بجائے ’خبر‘ ادب و آداب کے دائرے میں رہ کر منظرِ عام پر آئے تو پاکستانی عوام بھی چین و سکون کو محسوس کر سکیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ہم بے چینی سے اس کے آنے یا آن کرنے کا انتظار کریں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا وطن بہت پیارا ہے اس کی تعمیر سچائی، خلوص، بے غرضی، تہذیب و تمدن اور ایمان کی اینٹوں کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ کوئی بھی عاقل و بالغ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ بوقت آزادی اور اس سے پہلے کی تحریکوں میں بچہ، بوڑھا، جوان عورت اور مرد سب شیرو شکر ہو کر کارروائیوں، جلسے جلوسوں، احتجاجوں میں شامل تھے۔ اس وقت ایک ہی پلیٹ فارم ایک ہی پارٹی تھی جو اپنے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہی تھی۔ اگر ہم عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ یادِ رفتگاں کو تازہ کریں تو جو ہمیں نظر آئے گا وہ ایمانداری، جذبہ حب الوطنی، کرپشن کے خلاف مہم، رشوت کے خلاف جنگ، جھوٹ، دغابازوںسے حتی الامکان نفرت، پاکستان کی ترقی و ترویج کے لیے کام کرنے والے نامور معزز پاکستانی جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عبدالستار ایدھی،ارفع کریم،ملالہ یوسف زئی،شہدائے عظیم جن کی زندگی اب ہم جی رہے ہیں، ہر دور کا سیاستدان جو چاہے مفاد پرست بھی ہو مگر کچھ کچھ وطنِ عظیم کی آزادی، عزت، سربلندی اور توقیر کے لیے معروفِ عمل، پسماندہ علاقوں میں بجلی،گیس اور پانی کا نظام ممکنہ حد تک بھال، سرکاری ہسپتال، ڈسپنسریاں، ادویات طبی معالجے کی بہترین سہولیات کی کوششیں،مختلف سروسز کے بہت سے ایسے دانشور جو اندرونِ اور بیرونِ ملک انٹرنیشنل فورم پر پاکستان کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں، ہمارے ادیب، شعرائ، کالم نگار، ہمارے میڈیا کے قابل فق صحافی، کمپیئر جو پاکستان کے لیے ببانگِ دہل جان دینے کو تیار ہیں۔
ہماری تعلیمی ترقی کی مثال ابھرتے سورج کی مانند ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے بڑھ کر بات نجی اداروں کا تواتر سے کھلنا اور طالبعلموں کے داخلوں کی ایک لمبی فہرست ہماری علمی فروغ کی مثال ہے۔ ہماری ثقافت، تمدن تہذیب،ہماری زبان اردو کا سرکاری زبان قرار دیے جانا،تقریبات میں اردو میں تقاریر، جرنل آفیسرز کا عوام سے اور پیارے وطن کے خاص تہواروں یومِ تکبیر، یومِ شہداء اور یومِ آزادی پہ اندازِ تشکر، قوم کا اندازِ فکر،ہر بار ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر وطن کی مضبوطی کے لیے شانہ بشانہ کام کرنے کا عزمِ آہن، تجدیدِ عہد،روزگار کے مواقع کی ممکنہ فراہمی، عمارتیں، پلازے، سڑکیں، پل، انڈر پاسز، میٹرو اور موٹر وے پاکستان کی آزادی ہے اور ہمیشہ پاکستانی قوم کا سرمایہ رہے گی۔ ہمارے سائنس دانوں کی دن رات کی انتھک کوششیں اس وطن کو ایٹمی طاقت کا سر چشمہ بنانے کے لیے ان کو کون سی یادداشتوں سے نکال سکتا ہے۔
ہم وطن پرست،مذہب پرست اور اپنے اسلاف کے کارناموں کے پیروکار ہیں جب یہ وطن ہمارے حوالے کیا گیا اس وقت گو کہ ظلمت کدے زیادہ تھے مگر آج ہر سو اجالا ہے۔ ایک ننھے سے چراغ میں بھی ایک جگنو میں بھی اتنی روشنی ہے کہ وہ بھٹکے ہوئوں کو منزل تک لے جاتا ہے ہم نے تو پھر اپنی آنکھیں اپنا دل اپنے بازو اپنے جگر اس وطن کی راہ میں خاک کر دیے ہیں اور نہ ہم پر کوئی غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں نہ ہم کمزور اور بے منزل ہوئے ہیں ہمارے راستے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ہم پہاڑ کی چوٹیوں کو سر کرنے کی آج بھی اتنی ہی طاقت رکھتے ہیں جتنی کہ کارگل کی جنگ میں تھی۔ ہماری شکست کو ہمارا دشمن ترستا ہے اور ہم ترس رہے ہیں اس دن کو جب ہمارا پیارا پرچم دنیا میں ہمیشہ کے لیے لہرایا جائے گا اور دشمنِ وطن کے پرچم سرنگوں ہوں گے اور ہماری قومیت حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ خواہش مند ہوں گے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی اس دنیا کا عظیم ملک بنے گا، ان شاء اللہ !