جمعۃ المبارک 16 رمضان المبارک 1444ھ‘ 7 اپریل 2023ء
مریم نواز وکلا کنونشن کے بعد کچن پہنچ گئیں۔ فروٹ چاٹ تیار کی
سیاسی ہو یا دفتری‘ عورت کا یہی کمال ہے کہ اسے بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ ایک گھر سے باہر دفتر یا سیاسی میدان میں‘جہاں صبح سے شام تک مصروف رہنا پڑتا ہے۔ پھر واپس گھر آ کر دوسرا میدان سنبھالنا پڑتا ہے جو پہلے میدان سے بھی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ جی ہاں گھرداری کوئی خالہ جی کا کام نہیں۔ صفائی ستھرائی ، د ھلائی، کچن، شوہر نامدار کی اور بچوں کی آئوبھگت‘ ان کی فرمائشیں پوری کرتے‘ کھلاتے پلاتے رات ہو جاتی ہے مگر گھریلو ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں۔ جہاں سب اکٹھا رہتے ہیں ‘وہاں یہ ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ اب مریم نواز شریف کو ہی دیکھ لیں سیاسی ذمہ داریوں اور مصروفیات نے انہیں اور ان کی گھریلو زندگی کو کتنا ڈسٹرب کیا ہوا ہے۔ صبح یہاں تو شام کو وہاں۔ اس کے باوجود گزشتہ روز راولپنڈی میں وکلاء کنونشن کے بعد جب وہ شام کو مریم اورنگ زیب کے گھر پہنچیں تو سیدھا باورچی خانے کا رخ کیا اور افطار کے لئے فروٹ چاٹ کی تیاری میں ان کی والدہ کی مدد کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی فطرت میں گھردار خودبخود رچ بس جاتی ہے۔ یہ تو پاکستان کے امیر کبیر خاندان ہیں جو اس وقت افطاری پر اعلیٰ انتظام کر سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو بازار سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ مگر رمضان میں گھر میں افطار و سحر کی تیاری کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ جب دھن دولت آسمان سے برستی ہو تو ہر نعمت دسترخوان پر میسر ہوتی ہے۔ مگر کیا مریم نواز شریف نے کبھی پلٹ کر یا جھک کر اپنے سے نیچے ان کروڑوں پاکستانیوں کے گھروں کے باورچی خانوں میں بھی جھانکا ہے جہاں موجودہ حالات میں روزہ افطار کرنے کے لئے چند گھونٹ پانی ایک عدد سادہ روٹی اور بمشکل ایک عدد شوربہ نما سالن کے کچھ بھی میسر نہیں۔ کھجوریں ، سموسے، پکوڑے، شربت ، پھل فروٹ تو ان کی قسمت کی طرح ان سے روٹھ گئے ہیں۔ یہ لوازمات عام گھروں میں نہیں۔ ہاں خیراتی دستر خوانوں پر سڑک کنارے ضرور دستیاب ہوتے ہیں جہاں مخیر حضرات افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اکثر مارکیٹوں اور بازاروں میں ایسے بے شمار دسترخوان لگے ہوتے ہیں جن کے لگانے والوں کی منافع خوری کی بدولت ہی یہ اشیاء غریبوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ ہے ناں عجیب بات۔
٭٭٭٭٭
الٰہ آباد میں ڈاکوئوںسے مقابلہ۔ ایک دیہاتی ہلاک، 2 گرفتار۔ ایک پولیس نے فرار کرا دیا
باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی۔ پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ جس ڈاکو کو پولیس نے فرار کروایا وہ کون تھا۔ کہیں وہ پولیس والوں کا اپنا بندہ یا پیٹی بھائی تو نہیں تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دیہاتیوں نے ایک جان کی قربانی دے کر ان ڈاکوئوں کو پکڑا اور ان کی خوب درگت بھی بنائی۔ مگر جب پولیس آئی تو اس نے کمال شفقت سے ایک ڈاکو کو فرار کرا دیا۔ واقعہ کی فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ 2 ڈاکو دیہاتیوں نے قابو کیے ہوئے ہیں۔ پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ ایک ڈاکو پکڑا گیا ہے۔ آخر یہ دوسرا ڈاکو کہاں گیا۔ درجنوں دیہاتی کیا جھوٹ بول رہے ہیں کہ انہوں نے دو ڈاکوپکڑے ہیں۔ چند پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ ایک ہاتھ آیا۔ لگتا ہے دال میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کالا ہے یا تو بھاگنے والا پولیس کا اپنا بندہ ہے یا پھر کسی پولیس کا رشتہ دار ہے یا مال مسروقہ میں سے پولیس کو ان کاحصہ دینے والا ہو گا۔ جبھی تو پردہ فاش ہونے کے خوف سے اسے بھگا دیا گیا۔ چشم دیدہ لوگوں نے تو باقاعدہ ایک اے ایس آئی اور ایک سپاہی کا نام لے کر اس پر فرار ہونے میں مدد دینے کا الزام لگایا ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھی نگلی نہیں جاتی۔ جس واردات کے درجنوں شاہد موجود ہوں اس کو جھٹلایا نہیں جاتا۔ اعلیٰ حکام پوری دیانتداری سے اس واقعہ کی تحقیقات کریں۔ فرار کرنے کی سنگین غلطی میں ملوث اہلکاروں کو سخت سزا دی جائے۔ ہلاک ہونیوالے شخص کا خون رائیگاں نہ جانے دیا جائے۔ ڈاکوئوں کو مارنے اور پکڑنے کا کام پولیس کا ہے۔ مگر افسوس یہ فریضہ بھی عوام خود انجام دے رہے ہیں۔ اگر کوئی مجرموں کو اسی طرح بھگاتا رہا تو پھرنہ ڈکیتیاں رکیں گی نہ چوریاں، نہ قتل نہ اغوا، اس لئے ایسی وارداتوں پر قابو پانے کے لئے پولیس کسی کو بھگانے کی بجائے پکڑنے میں دلچسپی لے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم
اگر ایسی رپورٹ کسی غیر ملکی خاص طور پر ہمارے مخالف دشمن ملک کی طرف سے شائع ہوتی یا سامنے آئی ہوتی تو ہم اسے دیکھے اور پڑھے بغیر ہی مسترد کر دیتے۔ مگر کیا کریں یہ اطلاع ہمیں ہمارے اپنے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین دے رہے ہیں۔ اس پر ہم جتنا بھی ماتم کریں کم ہے۔ گزشتہ 50 دہائیوں سے ہم ملک میں شرح تعلیم بڑھانے کی نجانے کتنی مہمیں چلاتے آئے ہیں۔ اربوں روپے اس شرح خواندگی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ مگر نتیجہ دیکھ لیں کیا نکلتا ہے۔ وہی جو گزشتہ روز وفاقی وزیر تعلیم نے بتایا کہ پاکستان میں سکول نہ جانیوالے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک طرف شہر شہر‘ گائوں گائوں میں بلامبالغہ ہزاروں نجی سکول ‘دو دو کمروں میں ہائی سکول ‘کیمرج و آکسفورڈ سکول کے نام پر کمائی کر رہے ہیں، لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف ہزاروں سرکاری سکول بھی کام کر رہے ہیں تو پھر یہ بدترین حالات کیوں ہیں کہ بچے سکول نہیں جا رہے۔ ہم اس وقت دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہیں جہاں بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ایک بار پھر اپنے سرکاری سکولوں کو تعلیم کا بہترین مرکز بنانا ہو گا۔ مفت تعلیم کے ساتھ غریب بچوں کو یونیفارم کتابیں اور ہمسائیہ ملک کی طرح ایک وقت کا کھانا مفت دینا ہو گا۔ صرف نصابی نہیں‘ ان بچوں کو پیشہ وارانہ تربیت دے کر ہنر مند بھی بنانا ہو گا۔ بچوں کی ٹیم بنانے کی بجائے کم بچے اور ان کی بہتر پرورش پر زور دینا ہو گا ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی کو تعلیم ، خوراک ، صحت و روز گار کی فراہمی کسی کیلئے ممکن نہ ہو گی۔
٭٭٭٭٭
محبوبہ کی کسی اور سے شادی پر نوجوان نے بم کا تحفہ بھیج کر دولہا کو اڑا دیا
اگرچہ رقیب کو مارنے یا قتل کرنے کی واردتیں دنیا بھر میں عام ہیں۔ کہیں کہیں تو عاشق نامراد محبوبہ یا رقیب کی جان لینے کی بجائے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں اور بقول شاعر
جان دے دی کہ دی اسی نے تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کا عملی مظاہرہ کرکے اپنی اس حماقت کی داد بھی چاہتے ہیں۔ خدا غارت کرے ان شاعروں کو جن کی وجہ سے مرض عشق میں مبتلا لوگ جابجا مارتے یا مرتے نظر آتے ہیں۔ خود آج تک شاید ہی ایک آدھ شاعر نے‘ جنہیں زیادہ ہی عشق کا بھوت ستاتا ہے خودکشی کی ہو یا کسی رقیب کو مارا ہو۔ روایتی داستانوں میں بھی دیکھ لیں۔ لیلیٰ، ہیر، سسی ؛صاحباں ، سوہنی یہ سب اپنے عاشقوں کو روتا چھوڑ کر اپنے اپنے شوہروں کے گھر سدھار گئی تھیں۔ بے شک بعد میں اگر کوئی بھاگ نکلی ہو تو یہ اس کی مرضی۔ مگر جس طرح پھر ان کاانجام ہوا ‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب گزشتہ روز بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں ایک ناکام عاشق نے محبوبہ کی کسی اور سے شادی پر اسے بم کا تحفہ پارسل کرکے اپنی ناکام محبت کا انتقام لیا‘ وہ خاصہ عبرتناک ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ دلہن تو بچ گئی مگر بے چارہ دولہا تحفہ وصول کرتے ہوئے بم پھٹنے سے موقع پر ہی آنجہانی ہو گیا۔ لگتا ہے یہ عاشق نامراد کسی انتہا پسند تنظیم کا کارکن ہو گا جبھی تو اس نے یہ خطرناک حرکت کی۔ چھتیس گڑھ ویسے بھی علیحدگی پسندوں کا گڑھ ہے‘ جہاں کئی دہائیوں سے بھارت سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ اب اس واقعہ پر ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے‘ کہا جائے یا پھر ’’کچھ پھول تو کھلتے ہیں ’’چتائوں‘‘ کے لئے بھی‘‘ کہہ کر دل کو تسلی دی جائے۔
٭٭٭٭٭