آئی ایم ایف کی مزید شرائط اور برادر مسلم ممالک کی کشادہ دلی
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے فنڈنگ کے بعد بھی پاکستان کو آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے دو ارب ڈالر کی فنڈنگ کرنے کے بارے میں زبانی آگاہ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کو تین ارب ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار 10 اپریل کو امریکہ جانے سے قبل متحدہ عرب امارات کی قیادت سے رابطہ کرینگے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو مختلف شعبوں کیلئے سالانہ 900 ارب روپے کی سبسڈی پر تاحال اعتراض ہے اور وہ شرح سود میں مہنگائی کے حساب سے مزید اضافے کے مطالبے پر قائم ہے۔ اسکے علاوہ آئی ایم ای نے پٹرولیم لیوی اور ٹیکسز کا شارٹ فال پورا کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف پٹرولیم لیوی کی مد میں 850 ارب روپے جمع کرانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ وزارت خزانہ کے بقول آئی ایم ایف پٹرول اور ڈیزل کی امپورٹ کم کرنے کا مطالبہ بھی کررہا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ ملک میں آج جتنی مہنگائی ہے‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہو رہی ہے اور ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی۔ ان سب معاملات کے پس منظر میں ملکی تباہی اور عوام کی زندہ درگوری کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا ’’جادو‘‘ ہی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ وطن عزیز گزشتہ پانچ دہائیوں سے آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جس نے اپنے قرض کے حقیر ٹکڑوں کے عوض ہم سے آبرومندی اور خودداری کے ساتھ زندہ رہنے کا چلن بھی چھین لیا ہے اور اب تو یہ عالمی مالیاتی ادارہ ہم پر مکمل سواری کر چکا ہے۔ ہماری باگ اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہماری رسوائیوں کا اہتمام کرنیوالی ڈکٹیشن دیئے چلا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں آئی ایم ایف سے مستقل خلاصی پانے کے امکانات پیدا ہو گئے تھے جس کا پیپلزپارٹی کی قیادت آج بھی کریڈٹ لیتی ہے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پھر کشکول اٹھالیا اور آئی ایم ایف کے پاس جا پہنچی۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان حکومت کے اسی معاملے کو فوکس کرکے دعوے کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آکر آئی ایم ایف کیلئے دروازے بند کر دینگے اور قرض کیلئے اسکے پاس جانے سے خودکشی کرنے کو ترجیح دینگے مگر اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی خراب معیشت کے پیش نظر پی ٹی آئی قیادت اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی جس کی مجبوری کو بھانپ کر آئی ایم ایف نے بھی انہیں خوب رگڑا لگایا اور بیل آئوٹ پیکیج کیلئے پی ٹی آئی حکومت سے خودداری کی رمق نچوڑ کر نکالنے کیلئے اسے ڈکٹیشن دینا شروع کر دی جس کا مقصد پاکستان کے ٹیکس سسٹم کو اپنے کنٹرول میں لینا تھا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف نے بیل آئوٹ پیکیج کے معاہدہ سے قبل پاکستان سے اپنی عائد کردہ ناروا شرائط نہ صرف تسلیم کرائیں بلکہ ان پر من و عن عملدرآمد کیلئے بھی پاکستان کی حکومت کو مجبور کیا۔ نتیجتاً مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں ضمنی میزانیوں کے ذریعے اضافہ کرکے اور نئے ٹیکس لگا کر اور اسکے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کرکے حکومت نے راندۂ درگا عوام کو زندہ درگور کرنا شروع کر دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کی یہی پالیسی سخت عوامی اضطراب کا باعث بنی اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ اسکے بعد اپوزیشن اتحادی پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو آئی ایم ایف کی جکڑ بندیوں کے باعث ملکی معیشت کو سنوارنے سے متعلق اسکے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد روکے جانے کے باعث اس نے پاکستان کو قرض کی دوسری قسط روک کر پاکستان کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ اس معاہدے کو بحال کرانے کیلئے اتحادیوں کی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اسکے آگے ناک رگڑی اور اسکی عائد کردہ نئی شرائط پر بھی من و عن عملدرآمد کرکے بے انتہاء غربت کے گرداب میں پھنسے بے بس عوام کے تن سے لباس اتارنے کا بھی اہتمام کرلیا۔ اتحادی حکمرانوں کی اس پالیسی نے حکومت ہی نہیں‘ پورے سسٹم کے ساتھ عوام کی بدگمانی و نفرت کو بڑھاوا دیا اور آج حکمران جماعتوں کی قیادتیں اگلے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے کی ہمت بھی نہیں کر پارہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اپنی بے توقیری کے سارے اہتمام کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کو بیل آئوٹ پیکیج کیلئے ابھی تک رام نہیں کیا جا سکا اور وہ اپنی نئی سے نئی شرائط کا چھانٹا ہاتھ میں پکڑ کر پاکستان کے حکمرانوں اور عوام پر مسلسل برسائے چلا جارہا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اتحادیوں کی حکومت نے کوئی ایسی منت سماجت نہیں ہوگی جو اس نے آئی ایم ایف کے ساتھ نہ کی ہو‘ مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور رعونت کے ساتھ تقاضے بڑھائے چلا جارہا ہے جبکہ پاکستان کی اس مجبوری کو بھانپ کر اب عالمی بنک نے بھی اسے اپنی شرائط کے رگڑے دینا شروع کر دیئے ہیں۔
اسکے برعکس برادر چین اور مسلم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اسکی مالی معاونت پر ہمیشہ آمادہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ان تینوں ممالک کی جانب سے پاکستان کو بارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ بیل آئوٹ پیکیج ملے۔ سعودی عرب نے دو سال کے ادھار پر پاکستان کو اسکی ضرورت کا تیل بھی فراہم کر دیا مگر پی ٹی آئی حکومت کے بعض فیصلوں اور اقدامات کے باعث پاک چین اور پاک سعودی تعلقات میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں تو انہوں نے پاکستان کی مالی معاونت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ اب اتحادیوں کی حکومت کی کوششوں کے نتیجہ میں ان دونوں برادر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر چھائے غلط فہمیوں کے بادل چھٹ رہے ہیں اور انکی جانب سے پاکستان کی مالی معاونت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ دو ماہ قبل چین کی جانب سے بھی خطیر رقم پاکستان کو موصول ہو گئی تھی اور برادر سعودی عرب بھی گزشتہ ماہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم پاکستان کو بھجوا چکا ہے اور مزید مالی معاونت کیلئے آمادہ ہے جس کیلئے وزیراعظم میاں شہبازشریف کے آئندہ ہفتے کے دورۂ سعودی عرب کے دوران معاملات طے پانے کی توقع ہے۔
اس صورتحال میں مناسب تو یہی ہے کہ ملکی معیشت کے آئی ایم ایف پر مکمل انحصار کی پالیسی پر نظرثانی کرکے اسکے شکنجے سے باہر نکلنے کی کوشش کی جائے اور برادر چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی‘ تجارتی دوستانہ تعلقات میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ بصورت دیگر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے ہمیں عزت و آبرو کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے۔