صبر اور برداشت
بجلی۔گیس کی قیمتوں میں 15اور 20فیصد کمی کرنے اور اجرت میں اضافہ کا اعلان۔ تاریخ کے بدترین زلزلہ کے باوجود۔ کوئی جواز گھڑا نہ تاویلات پیش کیں۔ قارئین کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے پہلے پڑھ لیں یہ پاکستان نہیں’’ ترکیہ‘‘ کے صدر کا فیصلہ ہے جو ہمیشہ اپنے عوام کے ساتھ کھڑا رہنے میں دل سے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اب کیا غرض الیکشن کیوجہ سے عوام کو مراعات دیں بھلے سے کوئی 100سال ’’مسند‘‘پر بیٹھا رہے عوام کے مسائل تو نہ بڑھیں۔ عوام کو تو ریلیف۔ سکون گھر کی دہلیز پر ملتا رہے۔ یہ ہے اصل ریلیف۔ بلا تفریق اسی لیے تو کبھی کوئی لائنوں میں نہیں لگا اور نہ بھگڈر مچنے سے معصوم۔ غریب جانوں کا نقصان ہوا۔ زیادہ غربت بھگڈر کا باعث بنتی ہے اور لائنیں آدمی کی عزت نفس کو مجروع کرتی ہیں۔ بڑے ’’میاں صاحب‘‘ کے دور سے لکھتی آرہی ہوں کہ مشہوری والی سکیموں سے اجتناب برتا جائے۔ ریلیف دینا ہے تو بجلی۔ پٹرول۔ گیس کی قیمتوں میں معتدبہ کمی کر دیں۔ سادہ سی بات ہے جو پیسے یہاں سے بچیں گے اْن سے عام آدمی اپنے گھر کی بقیہ ضرورتیں پوری کرلے گا پر ’’افسوس‘‘ ہر ’’شاہ‘‘ نے مشہوری کو ترجیح دی۔ نتائج عوام بھی خوار ازاں بعد کرپشن کے الزامات۔ مقدمات کیونکہ ’’سکیمیں ‘‘تو ٹھیک تھیں مگر مانٹیرنگ کا نظام موثر نہیں تھا۔
’’آئی ایم ایف‘‘ ہدایت پر ایکسپورٹ سیکٹر کی بجلی سبسڈی ختم کی۔ قومی اسمبلی میں حکومت کا بیان۔ رکن اسمبلی ’’وجیہہ قمر‘‘ نے وزارت توانائی سمیت تمام اداروں میں ’’گریڈ 16سے گریڈ22‘‘ تک ملنے والی مفت بجلی ختم کر کے مفت یونٹ والی رقم ایکسپورٹ سیکٹر کو دینے کا مطالبہ کیا۔ رکن اسمبلی کا بہت اچھا مشورہ ہے یہ حکومت کو مان لینا چاہیے۔ اس پر کچھ عرصہ سے مختلف حلقے زور دے رہے ہیں کہ مفت مراعات کا سلسلہ بند کیا جائے۔ویسے بھی جو ملک کے معاشی حالات ہیں اس میں ناصرف مفت مراعات کا خاتمہ ہونا چاہیے بلکہ مختلف حکومتی عہدداران کو ملنے والی لائف ٹائم مراعات کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے۔
تمام محلے داروں سے شناختی کارڈز لیکر مفت آٹا حاصل کرتا پھر اْن کے تھیلے تبدیل کر کے مہنگے داموں فروخت کر دیتا۔ زیر تعلیم بچوں کے نام پر مفت آٹا لیکر دکانوں۔ ہوٹلوں میں فروخت کر دیتا۔
الحمد للہ بغاوت قانون ’’عدلیہ ‘‘ نے ختم کر دیا ایسا سیاہ قانون جو انگریز کی نشانی تھا صرف حکومت مخالف تقاریر پر لاگو ہو جاتا تھا تب کے دور میں تو نفاذ کی سمجھ آتی ہے۔ ظاہر ہے ایک طرف قبضہ گروپ تھا بیشک اقلیت میں تھا پر تمام وسائل سے لیس۔ طاقت سے طاقت پر قابض دوسری طرف مفتوحہ اقوام۔ آبادی سے لیکر جغرافیائی حدود میں بھی سوچ سے بڑھ کر مگر عمل میں ناپید نیت میں کھوٹ۔ اخلاص زیرو۔سزا تو ملنا تھی سو اقلیت اکثریت پر مسلط کردی گئی۔ سوچئیے آج ہمارے حالات کیا ہیں۔ قانون بنانے والے سامراج۔ ہم پر قبضہ کرنے والے غیر ملکی۔مقصد اور نفاذ تب بھی ناجائز اور غیر قانونی تھا پر اْن کے جانے کے بعد مخالفین کو دبانے میں اس کالے قانون کا جس ظالمانہ حد تک استعمال کیا اپنوں نے اپنوں پر کہ معلوم ہونے لگا تھا کہ سب مخالف ہی غدار ہیں حالانکہ یہی ایک مرتبہ حکومت میں ہوتے ہیں اور دوسری مرتبہ اپوزیشن میں اور سب پاکستانی ہیں ایک دوسرے کے رشتہ دار بہن بھائی۔ تعلق دار۔ ہمسائے۔ سکھ دْکھ میں شریک محلہ دار۔ کوئی ایسا کام نہ کیا کریں کہ بات چیت کرنے سے جائیں۔ ملنے جلنے کے راستے زیادہ تنگ نہ کیا کریں۔ واپسی کا راستہ ہمیشہ کْھلا رہنا چاہیے کیا پتہ گاڑی مالک کو ہی واپس مڑنے کی احتیاج درپیش ہو جائے۔ شکر کہ 1860میں غلاموں کے لیے بنایا گیا قانون’’ 2023‘‘میں معزز قابل احترام ’’جسٹس شاہد کریم‘‘ نے ختم کر کے ہم غلاموں پر مہربانی فرمائی۔ بے بنیاد تھا یا کِسی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا۔ ’’سوال‘‘ سے ہٹ کر۔ہم اب روز بروز نت نئے تماشوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ورنہ پھر سب کو ایسے ہی ظالمانہ طریقوں۔ ایذاء سے گزرنا پڑے گا۔ کہاوت ہے ’’جو بوئے گا وہی کاٹے گا’’۔ صد احترام ’’جسٹس فائز عیسی‘‘ کے خلاف حکومت نے ریفرنس واپس لیکر اچھا فیصلہ کیا۔ نہ دیکھا جائے کہ اچھا قدم کِس نے اْٹھایا۔ جو بھی ہو۔ پذیرائی ضرور ہونی چاہیے۔ یہ سبق بھی سب ضرور یاد رکھیں کہ آئین بن گئے۔ کبھی ختم نہیں ہوتے (ترمیم ممکن ہے مگر خاتمہ نہیں )۔ مگر قوانین کا ناجائز استعمال کرنے والے کبھی نہ کبھی زد میں آتے ضرور ہیں۔
صبر اور برداشت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ پکڑدھکڑ مار کٹائی گالم گلوچ۔ سب کے نتائج سامنے۔ کبھی کِسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کِسی نے مذمت نہیں کی۔ ’’مْرغی صرف میری میز پر حلال ‘‘ میری پلیٹ میں لازمی۔ نہیں پرواہ کہ بالمقابل شاید زیادہ ضرورت مند ہو۔ جب صرف اپنی ’’ذات‘‘ ہی مقصود چاہت بن جائے تو ’’برگد‘‘ کے گھنے۔ قدیم درخت بھی بونے دکھائی دیتے ہیں۔ تحمل تو ہمیشہ انسانی وجود کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے پر لمحہ موجود میں ؟انسانی وجود ہی پورا بارود کا ڈھیر بنا پْتلی کا تماشہ دکھا رہا ہے تو ایسے میں تماش بین خود کو کیسے قابو میں رکھیں ؟ زندگی میں یقینا بہت کچھ دیکھا۔ مختلف حالات۔ واقعات سے گزرے۔ کہانیاں سْنیں پر زیادہ تر پر یقین نہیں کیا کیونکہ صورت کہانیوں کی تھی اسلئیے مگر اب کی مرتبہ 90 ڈگری حالات بدل گئے۔ نہ روایات۔ ادب والا معاشرہ رہا نہ بزرگوں۔ عورتوں کو دیکھ کر احترام سے جْھکنے والی آنکھیں رہیں۔ بلکہ اب تو آنکھیں دکھانے والی پْتلیاں بن گئی ہیں۔ ایک دوسرے کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ذاتی دشمنی سے بڑھ کر دشمنی کا جذبہ مگر اب وہ بھی ایک ہو رہے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے کیونکہ حالات کا تقاضا ہے اور اِدھر ہم ؟ ہمارے تو مسائل بھی سنگین ہیں حالات بھی گھمبیر ہیں کیا ہمیں متحد نہیں ہو جانا چاہیے۔