• news
  • image

پیر‘ 19 رمضان المبارک 1444ھ‘ 10 اپریل 2023ء

وزیراعظم ہاؤس میں داخل مشکوک افغانی گرفتار
اس سے ہماری سکیورٹی والوں کی لاپروائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اجنبی غیر ملکی شہری کس طرح ٹہلتے ٹہلتے کیا معلوم ٹک ٹاک بناتے ہوئے اس حساس علاقے میں داخل ہوا۔ کسی باوردی یا بے وردی شخص نے اسے روک کر چیک نہیں کیا۔ پوچھا تک نہیں کہ ’’کتھے چلے او سرکار‘‘ جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی ‘وہاں ایک افغان شہری بڑے آرام کے ساتھ 
چلیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اسکے پاس جاتے تھے مگر آہستہ آہستہ 
یا پھر پشتو میں ’’درزہ چہ یارا دا افغانستان دئے‘‘ یعنی ’’چل یار چلتے ہیں یہ افغانستان ہے‘‘ گنگنا رہا ہو گا اور نجانے کس کی نظر اس پر پڑی اور اسے خیال آیا کہ یہ موصوف کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے؟ اب اس کا دماغی معائنہ بھی ہو گا اور جسمانی حال احوال بھی اچھے طریقہ سے پوچھا جائے گا۔ اسلام آباد ہمارا دارالحکومت ہے۔ یہاں پاکستانی شہری جاتے ہوئے گھبراتے ہیں‘ خاص طور پر حساس علاقوں میں۔ اب وزیراعظم ہاؤس کوئی عام معشوق کی گلی میں تو نہیں ہے جہاں کوئی بھی دل پھینک منہ اٹھائے گھس جائے اور در معشوق کا دیدار کرے یا گلی کا طواف کرے۔ یہ ہماری سکیورٹی پر ایک سوالہ نشان ہے کہ اتنی سخت نگرانی کے باوجود یہ شخص کس طرح وہاں تک پہنچا۔ خدانخواستہ اگر یہ دشمنوں کا ایجنٹ نکلا یا خودکش بمبار ہوتا تو ہمارے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے اور بعدازاں کف افسوس ملنے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سیکورٹی لیپس کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہاں اور کیا خامی رہ گئی جس کی وجہ سے کچھ مزید غلط ہو سکتا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس ہو‘  صدارتی محل یا کوئی مغل اعظم کا دیوان عام نہیں جہاں ہر شہری بلاروک ٹوک جا کر اپنی شکایت سناتا اور انصاف پاتا۔ 
٭…٭…٭
بزدل آدمی لیڈر نہیں نواز شریف بن جاتا ہے‘ عمران خان
اب ہمارے سیاستدانوں کے پاس الفاظ کے انتخاب کا بھی وقت نہیں رہا۔ وہ اپنی ذات سے ہٹ کر ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو عام زبان میں تھیٹروں یا سٹیج کی جملے بازی کہلا سکتے ہیں۔ یا عوام کو ہنسانے کی بھرپور کوشش ۔ بات پہلے تو اوئے توئے سے شروع ہوئی پھر اس کے بعد الحفظ والامان‘ کیسے کیسے رکیک جملے ایک دوسرے کو کہے گئے۔ کیا کیا بے ہودہ الزامات ایک دوسرے پر لگائے گئے۔ نہ اخلاقیات کا خیال کیا گیا نہ عزت و احترام کا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور کس کا کیا گلہ کریں جب عدلیہ کی طرف سے کسی کو چور‘ ڈاکو‘ سسلین مافیا لٹرے کہہ کر مخاطب کیا جائے گا تو سیاستدان تو ویسے ہی زبان کے چسکے کے عادی ہوتے ہیں۔ انہیں راہ دکھائی دی اور وہ اس راہ پر اتنا آگے  بڑھ گئے کہ اب واپسی ناممکن ہو گئی ہے۔ عمران خان نے سیاست میں جس زبان کو فروغ دیا اس کا خمیازہ انہیں خود بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ مخالف کو بزدل کہتے ہیں تو جواب میں وہ انہیں ڈرپوک بزدل کہہ رہے ہیں جو سر پر حفاظتی ڈبہ چڑھا کر بھی باہر نکلنے سے ڈرتا ہے۔ اب میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ شیر بنیں اور فوری طور پر پاکستان آنے کا پروگرام بنائیں۔ شاید وہ ڈرتے ہیں کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا اور پھر عمران خان کہیں شہباز گل ‘ اعظم سواتی اور شیخ رشید پر بعداز گرفتاری تشدد والے الزامان ان پر بھی نہ لگا دیں۔ مگر ڈریں نہیں ایسا اب نہیں ہو گا کیونکہ شاہ محمود قریشی اور علی امین گنڈا پور کی گرفتاری کے بعد عمران خان نے ان کے حوالے سے کوئی پرانا الزام یا بیان نہیں دہرایا اس لئے میاں نواز شریف بزدلی کا طعنہ ختم کرنے کے لئے فوری طور پر پاکستان واپس آنے کا سوچیں۔  
٭…٭…٭
سرکاری سطح پر پاکستان میں کبھی پذیرائی نہیں ملی‘ راحت فتح علی
یہ شکوہ کچھ زیادہ ہی لگ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر راگ و رنگ کی دنیا کے لوگوں کو جو عزت و احترام دیا جا رہا ہے‘ اس کی سب سے بڑی گواہی دن رات میڈیا میں اور سیاسی جماعتوں میں ان کی موجودگی سے ملتی ہے۔ عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی‘ ابرار الحق‘ سلمان احمد وغیرہ کو دیکھ لیں وہ سیاسی میدان میں عروج پر ہیں۔ اسی طرح کئی بڑے بڑے فنکاروں‘ گلوکاروں کو اعلیٰ سرکاری اعزازات سے بھی نوازا جاتاہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ گلہ کر کے تو حیرت کی بات ہے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ استاد فتح علی خان کو بھی سرکاری طور پر ہمیشہ پذیرائی ملتی رہی ہے۔ اعزاز بھی ملا ہے۔ اب راحت فتح علی خان کو اگر عالمی شہرت ملی ہے تو شاید وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی سرکاری سطح پر سراہا جائے بے شک ایسا سوچنا کوئی غلط بھی نہیں۔ مگر وہ دل چھوٹا نہ کریں آج ان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اسی محبت کی بدولت ہے جو لوگ ان سے کرتے ہیں ورنہ سوائے غلام فرید صابری برادران کے قوالوں کی اکثریت روزی پانی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتی تھی۔ پھر ان کے بعد عزیز میاں نے قوالی کو نیا انداز دیا پھر چل سو چل قوالی مذہبی رنگ سے آزاد ہو کر مئے گلفام میخانہ۔ لب و رخسار خیال یار سے نکل کر ہر طرح کے عامیانہ و سوقیانہ شاعری کی بدولت وہ تقدس و احترام کھو بیٹھی اور قوالوں کا سارا زور 
مست نظروں سے اﷲ بچائے
مہ جبینوں سے اﷲ بچائے 
لوٹ لیتے ہیں یہ مسکرا کر
ان کی چالوں سے اﷲ بچائے
پر ہو گا تو پھر کمائی تو بہت ہوتی ہے۔ مگر سرکاری سطح پر حسن ستاروں یا تمغوں کی خواہش ہوتی ہے وہ کچھ دیر بعد پوری ہوتی ہے۔ راحت فتح علی ابھی جوان ہیں‘ فکر نہ کریں ان کی بھی سرکاری پذرائی ہو جائے گی ۔
        ٭…٭…٭
دھوکہ دہی سے 105 خواتین سے شادی کرنے والے امریکی کا ورلڈ ریکارڈ
امریکہ یا یورپ میں شادی کرنا کوئی گڈے گڈے کا کھیل نہیں اس لئے وہاں شادی کے بغیر تعلقات اور بچے پیدا کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ شادی ایک ایسا سخت قانونی معاہدہ یا بندھن بن جاتا ہے جس میں مرد ہو عورت اگر کوئی ایسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے‘ اسے اپنی جائیداد اور آمدنی کا بڑا حصہ دوسرے فریق کو دینا پڑتا ہے۔ اس لئے وہاں شادی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اب اس امریکی کو دیکھ کر تو ہماری بات چھوڑیں خود لاکھوں امریکیوں کے جذبات متاثر ہوئے ہوں گے کہ یار یہ تو بڑا فراڈیا نکلا۔ کتنی آسانی سے ایک دو نہیں‘ پوری سنچری بنا کر مزید پانچ کا سکور بھی کر گیا اور اتنی بڑی تعداد میں خواتین سے شادی بھی کر لی۔ کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ ورنہ قانون تو اس کی ایسی تیسی کر چکا ہوتا مگر یہاں الٹا معاملہ ہے۔ اس کا نام اس کارنامے کی بدولت گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں سب سے زیادہ شادیاں کرنے والے مرد کے طورپر درج کر لیا گیا ہے۔ موصوف کا کمال یہ ہے کہ اس نے کسی کو طلاق نہیں دی۔ وہ شادی کے بعد بیوی کا قیمتی سامان اور پیسے لے کر فرار ہو جاتا تھا۔ اس کا آخری شکار بننے والی خاتون نے اس کا تعاقب جاری رکھا اور 1981 ء میں اسے گرفتار کرا کے دم لیا۔ تو یہ ساری کہانی سامنے آئی ہے۔ ہے ناں مزے کی بات۔ اب خدا جانے وہ زندہ ہے یا مر کھپ گیا ہے۔ مگر اس کے اس کارنامے نے اسے ورلڈ ریکارڈ کا حقدار بنا دیا۔ اب شاید ہی کوئی اسے توڑ سکے۔ خواتین میں الزبتھ ٹیلر جیسی مایہ ناز اداکارہ جو اپنی دولت حسن اور پرکشش نیلی آنکھوں کی وجہ سے مرقع خاص تھیں نے درجن بھر سے زیادہ شادیاں کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جو غالباً ابھی تک برقرار ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن