جسٹس قاضی عیسیٰ فائز اور سپریم کورٹ کی بالادستی
حافظ قرآن کو میڈیکل کے امتحان میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔ فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ازخود نوٹس نمبر 4/2022 میں 29 مارچ کا حکم 4 اپریل کا نوٹ منسوخ نہیں کر سکتا، متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب، صدر پی ٹی آئی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے آئین کی پاسداری کی، وہ کیوں استعفیٰ دیں، استعفیٰ شہبازشریف دیں جو آئین کو پامال کررہے ہیں جبکہ صدر اور سیکرٹری سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر20 اضافی نمبردینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے جسے آج بھی عدالت میں گھسیٹا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درست باور کرایا ہے کہ قرآن حافظ کو اضافی نمبر دیے جانے کے معاملہ پرپارلیمان سے قانون سازی کرالی جائے۔ دوسری طرف، 90 دن میں انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسلسل متنازعہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت بھی اپنی انتہا کو پہنچا نظر آرہا ہے جبکہ ججوں میں اختلافات کے باعث عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے جس سے انصاف کی عمل داری سے عوام کا اعتماد اٹھ سکتا ہے۔ عدالت کو سیاسی تنازعہ سے بچنے کے لیے فوری طور پر فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو ختم کرنا چاہیے جس کا تقاضا وکلاء تنظیمیں اور جج بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک سنگین بحرانوں سے گزر رہا ہے جبکہ سرحدوں کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ۔ دو روزپہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی تخریبی کارروائیوں کے تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی نے ایک بار پھر اس کالعدم تنظیم کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اسی وقت کارگر ہوسکتا ہے جب سیاسی قیادتیں اور ریاستی ادارے ملکی سلامتی اور بقاء کی خاطر اپنے اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں اور افہام و تفہیم اور اتفاق رائے سے انتخابات کی ایک تاریخ مقرر کرلیںتاکہ ملک سے انتشار کا خاتمہ ہوسکے۔