صدر کا عدالتی بل پر دستخط کرنے سے انکار
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023ء پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا ہے۔ صدر نے کہا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب، وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ صدر کی طرف سے پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل واپس کرنا افسوسناک ہے۔ صدر نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ صدر کا عہدہ وفاق کی علامت ہوتا ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرفداری یا اس کے حق میں بیانات دینے سے اس لیے گریز کرتا ہے تاکہ وہ آئینی تقاضے کے مطابق اپنا غیرجانبداری کا کردار ادا کرسکے۔ مگر بدقسمتی سے یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ سربراہ مملکت کا عہدہ مسلسل سیاسی کشمکش کا موضوع بنا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ صدر مملکت نے خود اس عہدہ پر بیٹھ کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا کردار اس وقت متنازع ہوا جب ان کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہونے کے بعد اتحادی حکومت اقتدار میں آئی اور صدر مملکت کی جانب سے حکومتی فیصلوں میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے۔ کئی معاملات میں ان کا جھکائو پی ٹی آئی کی جانب نظر آیا جس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ ایوان صدر اب وفاق کی علامت نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے طور پر کام کررہا ہے اور صدرمملکت اس جماعت کے نمائندہ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو سیاسی انتشار پھیلا ہوا ہے، ریاستی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے ہیں، اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کا تقاضا تو یہی ہے کہ معاملات کو مزید الجھانے کے بجائے تمام سیاسی قیادتیں مل بیٹھ کر حالات کو سدھار کی طرف لے جائیں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے بھیجے گئے بل میں صدر مملکت کی جانب سے جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیںیا اس میں کوئی ابہام یا کمی ہے تو اسے متنازعہ یا اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر اس پر نظرثانی کرلی جائے۔اگر بل کو محض انا کا مسئلہ بنا کر اس پر دستخط سے انکار کیا جاتا ہے اس سے صدر مملکت کا کردار مزید متنازعہ بن سکتا ہے اور اس سے ان کے خلاف محاسبہ کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔