• news
  • image

برٹش انڈین آرمی میں ہندو مسلم بھائی چارہ

متحدہ ہندوستان کثیر الاقوام، کثیر المذاہب اور کثیر النسل ملک تھا۔ اس کا کل رقبہ اس وقت 37لاکھ مربع کلو میٹر تھا اور آبادی لگ بھگ 35 کروڑ (1900ء میں) اتنے بڑے اور وسیع ملک میں اگر ذات پات کا اندازہ لگایا جائے تو اس کی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ اسی طرح بڑے مذاہب تو تقریباً پچاس کے قریب تھے لیکن ان کے فرقے ایک ہزار سے اوپر تھے۔ ہندوستان کی علاقائی زبانیں ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 ہزار سے اوپر تھیں۔ ایک علاقے کی زبان دوسرے علاقے میں نہیںسمجھی جاتی تھی۔ بعض زبانیں تو گرامر اور لکھائی کی رو سے بھی ایک دوسرے کی مخالف تھیں، مثلاً اردو، پنجابی، پشتو اور عربی وغیر ہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی تھیں جبکہ ہندی، بنگالی اور سنسکرت وغیرہ بائیں سے دا ئیں۔ عقائد بھی نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف تھے بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کی ضد تھے مثلاً ہندو گائے کی پرستش کرتے تھے اور مسلمان ذبح کر کے کھا جاتے اور چمڑے کے جوتے بناتے۔ اسی طرح ہندو اپنی بتو ں کو ناچ گانا بطور مذہبی عبادت سکھاتے اور مسلمان بچیوں کو پردہ کراتے۔ ہندو بتوں کی پرستش کرتے اور مسلمان ان سے نفرت کرتے۔ ہندو ذات پات کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے جبکہ مسلمانوں پر کوئی ایسی پابندی نہ تھی۔ ہندو نہ صرف اپنی سے نیچی ذات سے نفرت کرتے بلکہ مسلمانوں سے بھی یہی سلوک کرتے۔ مسلمانوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا یا مسلمان کا صرف چھوا ہوا کھا نا حتیٰ کہ پانی تک استعمال کرنا ہندوؤں کے نزدیک حرام تھا۔ آپس کی نفرت اس حد تک تھی کہ ریلوے سٹیشنوں پر پانی کے دو علیحد ہ علیحدہ مٹکے رکھے جاتے تھے اور اوپر لکھا جاتا ’ہندو پانی‘ اور’مسلمان پانی‘۔اگرغلطی سے کوئی مسلمان ہندوؤں والے مٹکے سے پانی پی لیتا تو وہ مٹکا توڑ دیا جاتا اور کفر کا مرتکب ہونے والا مسلمان واجب القتل ٹھہرتا اور ایسے علاقے میں فسادات پھوٹ پڑتے۔
اس طرح مختلف علاقے کے لوگوں میں رہن سہن کے طریقے اور روزمرہ کی خوراک بھی مختلف تھی۔ بنگال کی آبادی چاول مچھلی پر زندہ رہتی اور پنجاب کے لوگ روٹی اور دودھ لسی پر۔ سکھ شراب کے بغیر رہ نہیں سکتے اور مسلمان اسے حرام گردانتے تھے۔ شمال اور شمال مغرب کے برفانی علاقے کے لوگوں کی رہائش اور خوراک میدانی علاقے یا ساحلی علاقے کے لوگوں سے یکسر مختلف تھی۔ اسی طرح علاقائی سوچ اور علاقائی اقدار بھی مختلف تھیں۔ ہندوستان تھا تو ایک ملک لیکن زندگی کے ہر شعبے میں تضادات کا مجموعہ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابتدائی تاریخ سے یہاں کے لوگ اور راجے مہاراجے کبھی آپس میں نہ مل سکے اور بیرونی حملہ آوروں کے سامنے گرتے رہے۔ یہ حال مسلمان فاتحین کا بھی ہوا یہاں کچھ عرصہ حکومت کرنے کے بعد انھی تضادات اور نفرتوں کا شکار ہوئے اور نئے فاتحین کی تلواروں کا شکار ہوتے رہے۔ تمام بادشاہوں کی اولاد یں اپنے بہن بھائیوں اور مخالفین کو قتل کر کے ہی تخت کی وارث بنے ورنہ شرافت اور مہذب طریقے سے نہ کوئی تخت حکومت تک پہنچ سکا اور نہ حکومت کر سکا۔
یہ تھا وہ پس منظر جس نے انگریزوں کو اپنے وطن سے ہزاروں ملا دور ایک وسیع و عریض سلطنت کا مالک بنا دیا۔ ان حالات میں کسی اچھی اور ڈسپلن والی فوج کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔ انگریزوں سے پہلے راجوں مہاراجوں کی بھی بڑی بڑی افواج تھیںلیکن وہ افواج سے زیادہ مجمعے تھے۔ ڈسپلن اور جنگی چالوں سے نابلد۔ ان میںا بھی دلیر لوگوں کی کمی نہ تھی لیکن جب تک اتحاد، یک جہتی، مقصد سے لگن اور سب سے بڑھ کر فوجی ڈسپلن نہ ہو وہ فوج کہلانے کی حقدار ہی نہیں۔ لیکن انگریزوں کی تنظیمی صلاحیت کی داد دینی پڑتی ہے کہ جہاں ہمارے اپنے راجے مہاراجے اور شہنشاہ اعلیٰ پائے کی فوج بنانے میں ناکام رہے وہاں انگریزوں نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے ،مخالف عقائد اور مخالف مذاہب رکھنے والے لوگوں سے ایک عظیم فوج تیار کی جس نے دو سو سال تک انگریزوں کی خدمت کی۔
فوج کو ایک اعلیٰ تنظیمی ڈھانچے میں پرونے کے لیے انگریزوں نے کئی کامیاب طریقے استعمال کیے۔ انگریزوں کو اس لحاظ سے برتری حاصل تھی کہ وہ غیر ملکی لوگ تھے اور مقررہ حد میں رہ کر دولت سمیٹی کر چلتے بنتے تھے۔ یہاں مستقل طور پر نہیں رہتے تھے۔ اس لیے وہ یہاں کے لوگوں سے غیر ضروری طور پر میل ملاپ نہیں رکھتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اصول پسندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ اصول پسندی اور بلا امتیاز انصاف پسندی کو جنم دیا اور اس میں شک نہیں کہ انگریزوں نے تمام انتظامی کی بنیاد اصول پسندی اور انصاف پسندی پر رکھی اور یہ انصاف نہ صرف کتابوں میں تھا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا تھا۔ اسی لیے آج بھی بوڑھے لوگ انگریزی انصاف کی مثالیں دیتے ہیں کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔ اس لیے اصول پسندی اور انصاف پسندی نے فوج کو یک جان اور یک قالب کر دیا۔ فوجی تنظیم کا دوسرا اصول یہ تھا کہ افواج کو شہری علاقوں سے علیحد ہ رکھا جائے اور اسے تربیت کے نام پر اتنا مصروف رکھا جائے کہ فوجیوں کے پاس کوئی بری بات سوچنے کے لیے وقت ہی نہ ہو۔ افسر اور جوانوں کو خوش رکھنے کے کئی طریقے تھے لیکن فرض فرض تھا۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی فوج کو قابو میں رکھنے کے لیے بھی کئی طریقے تھے اسے قابو میں رکھنے کے لیے تین چیزیں جو فساد کی جڑ ہوتی ہیں ان پر بحث بالکل ممنوع تھی اور یہ تھیں مذہب ، عورت اور سیاست۔ اگر یہ تین چیزیں فوجی دماغ سے نکال دی جائیں تو باقی بحث کے لیے کچھ رہتا ہی نہیں، لہٰذا لڑائی جھگڑا کس بات کا۔ نتیجتاً مذ ہب اور ذاتی پسند نا پسند ایک ذاتی چیز بن کر رہ گئی جس کا آپس کے میل ملاپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ فیملیز آپس میں ملتیں، ایک دوسرے پر اعتماد کرتیں اور سگے بھائیوں کی طرح مثالی اتحاد سے رہتیں اور شایدیہ بھی ایک بہت بڑی وجہ تھی کہ بہت سے سینئر افسر 1947ء میں فوج کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ 
شروع شروع میں تو ہندوؤں میں ذات پات کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوئے مثلاً کوئی برہمن نوجوان کسی نیچ ذات کے ماتحت سروس کرنا گناہ سمجھتا تھا۔ ہندوؤں کی مختلف ذاتوں کو یوں اکٹھے رکھنا ،مل بیٹھ کر کھانا کھانایا مل کر سروس کرنا ناممکن تھا۔اَسی طرح ہندو مسلمانوں کے بھی سخت مخالف تھے۔ مسلمانوں کو بھی نیچ ذات سمجھتے تھے۔اِن حالات میں فوج میں یکجہتی اورہم آہنگی ممکن نہ تھی اور اگر فوج میں ہم آہنگی اور یگانگت نہ ہو تو وہ فوج نہیں رہتی۔ان حالات میں فوجی اپنی فیملیز کو بھی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ مختلف ذاتوں کی فیملیز بھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکتی تھیں۔مختلف فیملیز صرف اپنی اپنی ذات کی فیملیز سے ملتی تھیں اوریوں انگریزوں کے لیے ہندو سولجرز ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئے۔بہر حال داد دینی پڑتی ہے انگریز سرکار کواور ان کی ایڈ منسٹریشن کو۔ انھوں نے ’ڈسپلن‘ کے نام پرفوج میں باہمی تعاون پیدا کیا۔ یہ باہمی تعاون مزید اس وقت بڑھاجب فوج کو مقامی جنگیں لڑنی پڑیں۔پہلی جنگِ عظیم میں بھی جب فوج کو یورپ میں جاکر لڑنا پڑا تو سولجرز کو احساس ہواکہ ان کی زندگی کا انحصار باہمی تعاون پر ہے تو فوج میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور یوں ذات پات کا مسئلہ خود بخود حل ہو گیااور اِس سے سولجرز کی فیملیز بھی متاثر ہوئیں۔ایک دوسرے سے دوستی اور انڈر سٹینڈنگ کی بنیاد پڑی اور برٹش انڈین فوج برطانوی تاج کا ہیرا کہلائی۔ (جاری ہے)

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

epaper

ای پیپر-دی نیشن