توشہ خانہ فیصلے کیخلاف اپیل ، ابھی بڑے لوگ قابو آئیں گے : ہائیکورٹ
لاہور (این این آئی+ خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فریقین کو 17 اپریل کے لیے نوٹس بھی جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فریقین کو مکمل سن کر فیصلہ کریں گے۔ جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس رضا قریشی پر مشتمل بینچ نے وفاقی حکومت کی طرف سے انٹرا کورٹ اپیل پر ابتدائی سماعت کی۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے درخواست گذار وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے وزارت پارلیمان اور وزارت داخلہ کو فریق نہیں بنایا۔ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ میں میمو میں یہ فریق ایڈ کر دوں گا، حکومت نے سب کچھ ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔ صرف تحائف کے سورسز کی حد تک ریلیف مانگا ہے۔ عدالت عالیہ کے روبرو وفاقی حکومت نے سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے اپیل دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عالیہ کے سنگل بنچ نے 1990ء سے 2001ءتک توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کا حکم دیا، سنگل بنچ نے تحائف دینے والوں کے نام بھی پبلک کرنے کی ہدایت کی ہے، تحائف دینے والے ممالک کے نام پبلک کرنے کا سنگل بنچ کا فیصلہ قانونی طور پر درست نہیں ہے، اس لیے استدعا کی جاتی ہے کہ سنگل بنچ کا 1990ءسے 2001ء تک کا ریکارڈ پبلک کرنے اور ممالک کے نام پبلک کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ بنچ کے رکن جج جسٹس رضا قریشی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل سے کیا ایسے نہیں لگتا کہ جو ہے وہ بھی لٹانے آ گئے ہیں۔ اب تو معاملہ اس سے آگے جانا ہے۔ کیا تحائف لینے والے ڈکلیئر بھی کر رہے تھے کہ نہیں؟۔ این این آئی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے حکومت سے 1947ءسے 2001ءتک کا توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔ وکیل اظہر صدیق نے کہا حکومت پھنس رہی تھی اس لیے توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کیا گیا۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تو بڑے بڑے پھنسیں گے۔ عوام کی حکومت عوام کے لیے ہے۔ اگرہمیں کوئی گفٹ دے تو ہم بھی تحائف ڈکلیئر کرنے کے پابند ہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ریاست کی نمائندگی کرنے والوں پر تحائف ڈکلیئر کرنا لازم ہے۔ 1990ءسے 2001ءتک کا ریکارڈ چھپانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریماکس میں کہا کہ 1990ءسے پہلے کا ریکارڈ کدھر ہے؟۔ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ 1990ءسے پہلے کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس پر جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ ریکارڈ آپ کے پاس ہونا چاہئے، آپ حکومت ہیں۔