چیف جسٹس سپریم کورٹ کا صائب اقدام
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ میں پیدا ہونیوالی ججوں کی تقسیم کے خاتمے کیلئے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے پیر سے شروع ہونیوالے عدالتی ہفتے کیلئے بنچز اختلافات کا تاثر ختم کرنے کیلئے بنا کر اختلافی نوٹ لکھنے والے برادر ججوں کو اپنے بنچ میں شامل کیا جبکہ انہوں نے ساتھی ججز سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ اس ہفتے کے جاری کردہ روسٹر کے مطابق مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی اور مسٹر جسٹس اطہرمن اللہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے بنچ کا حصہ ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جسٹس محمدعلی مظہر کا بنچ بنایا گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ جسٹس عائشہ ملک کا بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ اسی طرح جسٹس اطہرمن اللہ آئندہ ہفتے جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ بنچ کا حصہ ہونگے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل بنچ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں بنچوں کی تشکیل اور زیرسماعت مقدمات کو بنچوں میں فکس کرنے کے حوالے سے فاضل چیف جسٹس کے ساتھ انکے ساتھی ججوں کے بجاطور پر تحفظات پیدا ہوئے تھے اور اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر کے حلقوں میں بھی یہ افسوسناک تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ سیاسی نوعیت کے مخصوص مقدمات کی سماعت کیلئے ایک مخصوص بنچ ہی تشکیل دیا جاتا ہے جس کا مقصد بادی النظر میں انصاف کا ترازو ایک فریق کے حق میں جھکانا ہوتا ہے۔ اس تاثر کے باعث انصاف کی عملداری کے حوالے سے بھی سوالات اٹھنا شروع ہوئے جبکہ سینئر پیونی جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے برادر ججوں کی جانب سے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات پر مقدمات کی سماعت کے دوران بھی اعتراضات اٹھائے۔ بطور خاص انتخابات التواء کیس میں تو برادر ججوں اور چیف جسٹس کے مابین بدمزگی کی فضا بھی پیدا ہوئی جو اس معاملہ کا ازخود نوٹس لینے سے متعلق تھی۔ یہ فضا اس حد تک گھمبیر ہوئی کہ عدالت عظمیٰ کے اسی کیس کے حوالے سے تین دو اور چار تین کی اکثریت والے فیصلے موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں اور حکومت‘ وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ بھی اسی مخمصے میں ہے کہ ان میں سے کس فیصلے کو درست سمجھ کر اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے برادر ججوں‘ سیاست دانوں اور وکلاء کے نمائندگان کی جانب سے فاضل چیف جسٹس سے ان تمام معاملات کی تشریح و وضاحت کیلئے عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اس معاملہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ کے جاری کئے گئے نوٹس سے معاملہ مزید گھمبیر ہوا۔
اب فاضل چیف جسٹس کی جانب سے برادر ججوں کے ساتھ معاملہ فہمی سے کام لینے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے جو یقینا مستحسن اقدام ہے۔ اس پراسس میں یا تو فاضل چیف جسٹس تین دو کی اکثریت والے اپنے فیصلے پر تحفظات رکھنے والے برادر ججوں کو قائل کرینگے یا انہیں چار تین کی اکثریت والے فیصلہ پر برادر ججوں کے موقف پر قائل ہونا پڑیگا۔ اسکے سوا تو ججوں کی تقسیم سے سپریم کورٹ کے تقدس اور ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں۔