• news
  • image

مسلمانوں کا مہینہ؟

 بیٹے کی بات سن کر میں چونک کر رہ گیا وہ بولا دینیات اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے اعتبار اٹھ گیا ہے، میں نے پوچھا کیوں؟ 
وہ بولا منافع کمانے کیلئے ذخیرہ اندوزی کی اندھا دھند دوڑ دیکھوں تو لگتا ہے کہ بیشتر حاجی تاتاریوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں،تاتاری تو تلوار کے دم پر لوٹ مار اور قتل کرتے تھے، لیکن ہمارے معاشی تاتاری بغیر تلوار کے ہی عوام سے انکی خوشیاں چھین کر انھیں جیتے جی مار رہے ہیں۔
 المیہ یہ ہے کہ انھیں روکنے کا فرض ادا کرنے کیلئے کوئی ادارہ تیار نہیں ہے، بس بیان ہی دیتے رہیں گے کہ عوام کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائیگی،بھلا ان سے پوچھے کہ کبھی کسی تاجر نے حکومت سے پوچھ کر مہنگائی کی ہے؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ رمضان میں صرف کافر ممالک کے شیطان ہی قید ہوتے ہیں کیونکہ وہاں بلا امتیاز مذہبی تہواروں پر چیزیں پچاس فیصد تک سستی کردی جاتی ہیں، جبکہ مسلمانوں کے اس ملک  میں پھلوں، سبزیوں، ملبوسات، جوتوں و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ کردیا جاتا ہے، رمضان سے قبل مبینہ طور پر جب شیطان آزاد تھا تومتوسط اور غریب کھانے پینے کی اشیاء کچھ نہ کچھ تو خرید لیا کرتے تھے۔
 دینیات کی کتاب کے مطابق رمضان تو مبارک مہینہ ہے جبکہ عملی طور پر تو عوام اس میں غارت ہو جاتے ہیں، چیزوں کی قیمتیں آسمان سے یوں باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ جیسے گرم ہوا والا غبارہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے،اگر شیطان واقعی جکڑ کر قید ہو جاتا ہے تو اس مہینے میں عصمت دری، چوری، ڈکیتی، قتل، اقدام قتل و دیگر جرائم کرتا کون ہے؟ اس مہینے میں مجرمانہ واقعات کم ہونیکی بجائے بڑھ کیوں جاتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ دینیات اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں جو لکھا ہے وہ ہمارے بارے میں ہرگز نہیں ہے، 
مطالعہ پاکستان کے مطابق ہم خودکفیل زرعی ملک ہیں لیکن گزشتہ چار سالوں میں جتنی بھاری مقدار میں گندم دالیں وغیرہ منگوائی گئی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ ہم بھکاری کے ساتھ ساتھ سب بڑے جھوٹے بھی ہیں، اکثر اوقات ان رمضانی لٹیروں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ یہ کس دین کس مذہب کے پیرو کار ہیں؟ 
اگر یہ مسلمان ہیں تو کونسا اسلام انھیں ساتھی مسلمانوں کو لوٹنے کی آزادی دیتا ہے؟ کونسا دین انھیں اس مہینے میں جعلی لال شربت بنانے، جعلی جوس اور جعلی بوتلیں تیار کرنے ، پائوڈر سے دودھ دہی بنانے اور ملاوٹ کرنیکی اجازت دیتا ہے؟
شاید یہ وہی ہیں جنکے بارے میں قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ مال کی ہوس میں یہ گونگے، بہرے اور اندھے ہوچکے ہیں جنکی عقل پر پردہ پڑ چکا ہے، جنکے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم میں سے نہیں ہیں، عوام لٹیرے تاجروں اور سٹہ بازوں کے ہاتھوں دن دیہاڑے لٹ رہی ہے لیکن ڈپٹی کمشنر ٹھنڈے کمروں میں آنکھیں موندے پڑے ہیں، دوسری جانب لا الہ الا اللہ کی گردان دھرا کر ملک میں انتشار پھیلانے اور جھوٹ کو فروغ دینے کی جدو جہد بھی جاری ہے، ماہ مقدس میں مفادات کے حصول کیلئے عوام کی جیبوں اور ذہنوں پر نفسیاتی ڈاکہ جاری ہے، اللہ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن