ہندوستان کی دوغلی خارجہ پالیسی!!!!!
یوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستان کا نقطہ نظر اور رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان امریکہ اور مغرب کا ناقابل بھروسہ ساتھی ہے۔ بھارت نے نہ یوکرین پر روسی یلغار کی مذمت کی اور نہ ہی امریکہ کی خواہش کے باوجود روس سے تیل کی بے دریغ خریداری بند کی، اس معاملے میں بھارت عالمی طاقتوں کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے ایک طرف عالمی طاقتوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رہا ہے تو دوسری طرف وعدوں کو توڑتے ہوئے خطے میں طاقتوں کے توازن کو بھی خراب کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کا یہ رویہ کچھ نیا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ اکثر و بیشتر عالمی طاقتوں کے ساتھ دوغلی پالیسی ہی اپناتا ہے۔ مسلسل وعدہ خلافیوں کے باوجود عالمی طاقتیں بھارت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کہ سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے فیٹف قوانین کے معاملے میں بھی بھارت کی خلاف ورزیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، کشمیر جو کہ تاریخ انسانی کا بہت بڑا المیہ ہے اور فوجی طاقت کے زور پر وہاں مسلمانوں کے لیے زندگی کو تنگ کر دیا گیا ہے لیکن عالمی ادارے اور عالمی طاقتوں کو بھارتی مظالم پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بھارت میں ہندوو¿ں کے علاوہ دیگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زندگی ڈراو¿نا خواب بنتی جا رہی ہے۔ بھارت کی پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کو ہی سن لیں تو یہ اندازہ ہوتا یے کہ وہاں کے سیاست دان بے جی پی کی پالیسیوں کو شدت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ راہول گاندھی کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، سکھوں کے خلاف کیسے آپریشن ہو رہا ہے کیا یہ متعصب ، مفاد پرست، موقع پرست اور ظالم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سکھ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ ریفرنڈم ہو رہے ہیں اور بھارت میں چن چن کر سکھوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ قابل گرفت چیزیں نہیں۔ نریندرا مودی کی حکومت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں کا بھارت کی طرف جھکاو¿ اور نرم رویہ ناقابل فہم ہے۔ چند روز قبل ہی بھارتی ریاست جھارکھنڈ میں انتہاپسند ہندوﺅں نے اپنے مذہبی پرچم کی بے حرمتی کا ڈرامہ رچانے کے بعد مسلمانوں پر اندھا دھند تشدد کیا جس کے بعد علاقے میں پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ جمشید پور کے علاقے شاستری نگر میں انتہا پسند ہندوو¿ں نے مسلمانوں پر حملے کیے۔ ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کی دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ دھلبھوم کے سب ڈویڑنل آفیسر پیوش سنہا نے کہا کہ علاقے میں امتناعی احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ہندو انتہاپسندوں نے ایک مسلمان کے آٹو رکشہ کو بھی آگ لگا دی۔ معاملات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے نمائشی طور پر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی ہے کیونکہ بھارت میں ان دنوں پولیس صرف اور صرف بلوائیوں کو تحفظ دینے والی قوت بن کر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی کوئی سخت قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔ بی جے پی کی حکومت والی بھارتی ریاست ہریانہ میں ایک ہندوتوا مسلح گروپ نے نماز ادا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کی جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ مسلح ہندو دہشت گردوں نے شہر سونی پت کے علاقے صندل کلاں میں حملہ کر کے ایک درجن سے زائد نمازیوں کو زخمی کر دیا۔ حملہ آور ہاتھوں میں تلواریں، خنجر اور بانس کی لاٹھیاں پکڑے آزاد گھومتے نظر آرہے ہیں۔ زخمیوں کو سونی پت کے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ظلم کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ دوسری طرف جو بائیڈن انتظامیہ کے بین الاقوامی توانائی کے مشیر نے ہندوستان کو روس سے تیل کی درآمد کے خلاف خبردار بھی کر دیا ہے۔ مغربی دنیا سے بہتر تعلقات کے دعویدار بھارت کا دوہرا معیار سامنے آ گیا ہے۔امریکہ سے قریبی اسٹریٹیجک شراکت داری کا دعویٰ کرنے والا بھارت دو اہم مواقع پر اپنے اتحادی کو دغا دے گیا۔امریکی کوششوں کے باوجود بھارت نے یوکرین پر روسی یلغار کی مذمت نہیں کی۔ امریکہ کی خواہش کے باوجود بھارت نے روس سے تیل کی بے دریغ خریداری بند نہیں کی۔یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ نے گزشتہ مارچ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔قرارداد منظور تو ہوئی لیکن امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود بھارت نے قرارداد پر رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔بھارت اس سے پہلے روس کے افغانستان پر حملے کی مذمت کے امریکی مطالبے سے بھی نظریں چرا چکا ہے۔حالیہ روس اور یوکرین تنازع کے بعد امریکہ نے بار بار بھارت کو روسی تیل کی درآمد پر خبردار کیا مگر بھارت کی روس سے درآمدات کا سلسلہ برقرار۔رپورٹ کے مطابق بھارت روس سے روزانہ 600،000 بیرل تیل درآمد کرتا ہے۔ہندوستان کی خریداری سے روسی خزانے کو کافی سہارا ملتا ہے۔روس بھارت سے کمایا ہوا سرمایہ یوکرین جنگ میں جھونک رہا ہے۔یورپ کا اتحادی بھارت بالواسطہ یوکرین کے خلاف روس کی مدد کررہا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے بین الاقوامی توانائی کے مشیر نے ہندوستان کو روس سے تیل کی درآمد کے خلاف خبردار کیا ہے لیکن بھارت نے امریکہ کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے دھوکک دہی کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔امریکی حکام کے انتباہ کے باوجود بھارت ٹھس سے مس نہیں ہورہا جس سے یورپ میں بھارت کے رویے سے شدید مایوسی ہے۔فِن لینڈ میں قائم سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر(مرکز برائے صاف توانائی اور فضا) نے ہوش ربا انکشافات کردیئے ہیں۔روس نے 100حالیہ دنوں میں تیل اور گیس کی برآمدات سے 100 بلین ڈالر کمائے ہیں۔روس کی تیل کی برآمدات کا بڑا حصہ بھارت درآمدات کرتا ہے۔گزشتہ سال مارچ میں بھارت کو روسی تیل کی درآمد 30 لاکھ بیرل تھی جو اپریل میں بڑھ کر 7.2 ملین بیرل ہو گئی۔مئی 2022 میں برا?مدات کے 24 ملین بیرل تک پہنچنے نے مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔بھارت کثیر سرمایہ روسی خزانہ میں ڈالتا ہے جو یوکرین کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔یوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستان کا نقطہ نظر اور رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان امریکہ اور مغرب کا ناقابل بھروسہ ساتھی ہے۔