آئین پاکستان 1973 ئ‘ عظیم کارنامہ ؟
اگر قیام پاکستان کے مقاصد پر غور کیا جائے تو دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی ہمارے لئے کافی ہے۔انہوں نے ہمیشہ اقرباء پروری ، سفارش اور رشوت جیسی لعنتوں کا قلع قمع کرنے اور بلا تفریق انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔
لیکن صد افسوس مجرم قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک عدالت کا تعلق ہے جب ثبوت نہیں ہوگا تو عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔محض تکنیکی بنیادوں پرمجرم چھوٹ جائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور ایسی صورت میں ضابطوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک سے دہشت گردی کی طرح ، بلا امتیاز قانون کی فراہمی اور کرپشن ، بدعنوانی، اقرباء پروری اور سفارشی کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بلاشبہ قانون کی بالادستی کے بغیر خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔دوسری طرف قومی اسمبلی کی گولڈن جوبلی کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے قومی اسمبلی کی مشاورتی کمیٹی کا اجلاس سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔جس میں گولڈن جوبلی تقریبات کو شایان طریقے سے منانے کے لیے ہونے والی تیاریوں اور ابتک کی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔مشاورتی کمیٹی نے پاکستان کی آئینی یادگار پارلیمنٹ لاجز کے سامنے تعمیر کرنے کی تجویز کو حتمی شکل دی ۔ یہ فیصلہ آئین 1973ء کی گولڈن جوبلی کی تیاریوں کی نگرانی کے لیے بنائی گئی مشاورتی کمیٹی نے متفقہ طور پر کیا ۔ کمیٹی اجلاس میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دی گئی تجاویز کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس مقام کا انتخاب کیا گیا۔ یہ یادگار پاکستان کی جمہوریت سے وابستگی اور آئین میں درج اصولوں کی پاسداری کی علامت کے طور پر جانی اور پہچانی جائے گی۔ یہ یادگار دارالحکومت کا ایک تاریخی نشان بنے گا اور آنے والی نسلوں کو آئین پاکستان کے بارے میں رہنمائی ملے گی۔ "آئین کی یادگار ایک اہم منصوبہ ہے جو پاکستان کی کامیابیوں اور جمہوریت کے ساتھ اس کی وابستگی کو ظاہر کرے گا۔ یہ یادگار سب کے لیے فخر کا باعث بنے گی۔ مشاورتی کمیٹی کے فیصلہ کے تحت10 اپریل 2023ء کو یادگار کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یادگار 14 اگست 2023 سے پہلے مکمل ہو جائے گی۔ مشاورتی کمیٹی کی جانب سے قائم کی گئی ذیلی کمیٹی برائے تقریری مقابلوں کی سربراہ آسیہ عظیم نے کمیٹی کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے تقریری مقابلوں کے سلسلے میں اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ کمیٹی نے تقریری مقابلوں کے انعقاد کے سلسلے میں محترمہ آسیہ عظیم کے کردار کو سراہا۔ اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کامران مرتضیٰ، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، انجینئرز صابر حسین قائم خانی، محترمہ آسیہ عظیم، رمیش کمار وانکوانی، فرحت اللہ بابر، ظفر اللہ خان اور قومی اسمبلی اور متعلقہ محکموں کے سرکاری افسران نے شرکت کی۔پاکستان کا آئین عوام کا آئین ہے, پارلیمان عوام کا نمائندہ فورم ہے۔ یہ دستاویز عوام کی ملکیت ہے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے بہترین ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں پاکستان کے عوام اپنے آئین کی حفاظت کریں گے۔ آئین کی حکمرانی کو صحیح طریقے سے قائم کرنے کے لیے قانون میں شفافیت، قانون کے تحت برابری، آزاد عدلیہ اور قانون تک سہل رسائی ہونی چاہیے۔ یہ ایک سادہ سی سچائی ہے کہ ایک مستحکم، خوشحال، جمہوری اور مساوی ریاست قانون اور آئین کی حکمرانی اور اس پر عمل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ قانون منطق کے بغیر ادھوری دلیل کی طرح ہے۔ قانون اور آئین کا احترام غیر مشروط طور پر ہر فرد کے لیے لازم ہے۔ ایک فلسفیانہ اور قانونی تصور ہونے کی وجہ سے مختلف ادوار میں ادیبوں، فلسفیوں اور فقہا نے قانون کی حکمرانی اور آئین کے تصور کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ آئین پر سختی سے عمل کرنے سے ہی ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے۔ صرف آئین ہی ہمارے وطن کو مربوط رکھ سکتا ہے اور صرف آئین کی حکمرانی ہی ہمارے خوبصورت قومی وجود کی ضمانت دے سکتی ہے۔