• news
  • image

جمعرات ، 22رمضان المبارک ، 1444ھ، 13 اپریل 2023ء

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی ملک بھر میں منائی گئی
آئین ایک ایسی دستاویز ہے جو کسی بھی ملک کو چلانے بنانے اور وہاں کے تمام شہریوں کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کرتی ہے آئیں اس ملک کے تمام اداروں کے حدود اور فرائض کا بھی تعین کرتا ہے۔ اب چونکہ یہ آئین انسانوں نے بنایا ہوتا ہے اس لئے وقت کے ساتھ پیدا ہونے والی تبدیلیوں یا زمانے کے مطابق بہتری لانے کے لئے اس میں کچھ تبدیلیاں جنہیں ہم ترامیم کہتے ہیں بھی کرنا پڑتی ہیں۔ انہی کی وجہ سے اسے کبھی حکمرانوں نے سانپ سیڑھی والا کھیل بنا لیا اور کبھی معطل کر دیا۔ اگر نہیں کیا تو کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی مملکت خداداد میں تمام قوانین اور آئین اسی زندہ کتاب یعنی قرآن مجید کی روشنی میں بنانے کا کہا تھا مگر ان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے جمہوری ہوں یا آمر ، یکے بعد دیگر ے پاکستان میں کئی دستور نافذ کئے جن میں 1956ء  1962ء کے دستور تو ختم ہوئے 1973ء کا موجود ہے۔ 1973ء کے آئین کو متفقہ طور پر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں منظور کیا یوں ملک کو ایک متفقہ جمہوری آئین ملا مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اس آئین کی خالق جماعت کے دور میں ہی بننے کے بعد اس میں ترامیم کا ایسا منحوس سلسلہ شروع ہوا کہ اس کی اصل روح مجروح ہو گئی۔ پھر آنے والے ہر حکمران نے اس آئین کی اصل شکل مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود یہ آئین آج بھی ملک کی وحدت عوام اور اداروں کے حقوق وہ فرائض کا ترجمان ہے اگر سب ادارے اس کی روشنی میں کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں امن و استحکام قائم نہ ہو۔ مگر ہمارے حکمران اور ادارے اکثر اپنی من مانی کرتے ہوئے اس استحکام پاکستان کی علامت آئین سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کو اس کے ثمرات سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہر سال 10 اپریل کو یوم دستور منایا جائے گا۔ یہ اچھا فیصلہ ہے مگر اس کے ساتھ دستور پر عمل بھی کیا جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہو گا۔۔۔
سوشل میڈیا پر ادھار دینے والی ایپلی کیشنز کا فراڈ عروج پر
ہمارے لوگ بھی کیا سادہ ہیں کہ ہر بار کروڑوں اربوں روپے کے فراڈ کا زخم سہنے کے باوجود فراڈیوں کے ہاتھوں پھر لٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ لالچ بری بلا ہے سب مانتے ہیں مگر پھر بھی‘ کوئی رقم ڈبل کرنے کوئی زیورات ڈبل کرنے کوئی لاکھ پر ماہانہ ہزاروں روپے منافع دینے ‘ کوئی کمیٹی والی باجی بن کر لوگوں کو ماموں بنانے میں مصروف ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اس سے فائدہ اٹھانے میں پس و پیش نہیں کر رہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے متعدد کمپنیاں اور ادارے 10 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کی رقم بطور قرضہ نہایت آسان شرح منافع پر دینے کی مہم چلا رہے ہیں۔ ہر شخص تو نہیں مگر اکثر سادہ لوح صارفین اس کے دھوکے میں آ رہے ہیں۔ تھوڑی بہت رقم کی ضرورت سب کو ہوتی ہے۔ یہ فراڈی لوگوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور لوگوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ہمیشہ سے ہی سنگ پابند اور سنگ آزاد والی پالیسی پر عمل ہوتا ہے اس لئے انتظامیہ یا حکومت ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتی ہاں جب کروڑوں اربوں روپوں کا فراڈ ہوتا ہے تو پھر روایتی بندروں والی آنیاں جانیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی ہزاروں صارفین قرضہ دینے والے ان فراڈیوں کے ہتھے چڑھ کر تڑپ رہے ہیں۔ شور مچانے لگے ہیں اسلئے حکومت فوری طور پر ان دھوکے بازوں کے خلاف ایکشن لے۔ ریڈیو‘ ٹی وی ‘ اخبارات میں مساجد میں اعلانات کرائے کہ لوگ اس فراڈ سے ہوشیار رہیں ورنہ پھر سانپ نکل جائے گا اور لوگ لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔ ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘‘ آگے حکومت اور لوگوں کی اپنی مرضی۔
سندھ میں 3 کاغذی جیلوں کا انکشاف‘ افسران بھی تعینات ہیں
کیا کمال کی بات ہے۔ ہم ایسا کمال کرنے میں مثالی مہارت رکھتے ہیں۔ اب معلوم نہیں ان کاغذی جیلوں کے لئے میرپور خاص ‘ ٹھٹہ اور بے نظیر آباد میں کتنی اراضی خریدی گئی ہو گی۔ ان ہوائی جیلوں کی تعمیر کیلئے کتنی رقم بٹوری گئی ہو گی۔ قیدیوں کی خوراک‘ علاج ‘ بجلی ‘ پانی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کے لئے کتنی رقم لی جاتی ہو گی۔ ظلم تو یہ ہے کہ یہاں جو افسران تعینات ہیں ان میں سے کچھ جلد ہی 20 ویں گریڈ کی پرموشن (ترقی) کے منتظر ہیں۔ ویسے بھی یہ سب منظور نظر افسران 18 ویں گریڈ میں کام کر رہے ہیں۔ اب یہ دھوکہ سامنے آنے کے بعد تو ان بے چاروں کے دل ٹوٹ گئے ہوں گے۔ محکمہ جیل خانہ جات اور حکومت سندھ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں گے۔ کیونکہ انہیں تو ان ہوائی جیلوں کے حوالے سے وضاحتیں دینا ہوں گی۔ مگر ہمارے ہاں تو اس سے پہلے اسی طرح کاغذی سطح پر سڑکوں‘ ہسپتالوں کے علاوہ بھی نجانے کتنے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت حکمران اور ان کے حواری تجوریاں بھرتے چلے آ رہے ہیں۔ پول کھلنے پر فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی بنا کر جو انہی کے اپنے کارندوں پر مشتمل ہوتی ہے، عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ جیل کوئی چند کمروں پر مشتمل عمارت نہیں ہوتی۔ وسیع رقبے پر قائم ہوتی ہے وہاں عملہ تعینات کیا جاتا ہے۔ ان کاغذی جیلوں کے قیام کے لئے کاغذوں کی سطح تک دفتروں میں ساری کارروائی مکمل کی گئی ہو گی اس دھوکہ دہی کی واردات میں نجانے کون کون ملوث ہیں۔ یہ سب بے نقاب ہو کر سزا پائیں گے یا نہیں اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ ویسے بھی سندھ حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ کوئی کسی سے کیا گلہ کرے۔ ہم لوگ بھی کیسے کیسے حکمرانوں کے ہتھے چڑھتے رہتے ہیں۔۔۔ 
بندر بھی موبائل فون استعمال کرنے لگے
آج کل جسے دیکھو موبائل کا دیوانہ بنا ہوتا ہے۔ بچے‘ بڑے‘ بوڑھے سب اس کی زلفوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ میر نے تو کسی گیسو دراز محبو ب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
مگر آج کل محبوب ہو نہ ہو، موبائل ہر ایک اپنے پاس رکھتا ہے یوں سمجھ لیں اب موبائل فون کو محبوب کا درجہ مل گیا ہے اور چند سیکنڈ بھی اس کی جدائی برداشت نہیں ہوتی۔ خدا جانے ان عشاق موبائلز کو رات چند گھنٹے اس کے بغیر نیند کیسے آتی ہو گی ورنہ اس کو چارجنگ پر لگانے کے باوجود کئی لوگ استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ کشمیر کی شہرہ آفاق ڈل جھیل کی تعریف میں شاعر نے کہا تھا ’’تیرے عشاق کا ہوگور کفن پانی میں‘‘ اب خطرہ ہے کہ کہیں موبائل کے دیوانے بھی پس مرگ اپنے ساتھ اپنا عزیز از جان موبائل بھی دفن کرنے کی وصیت نہ کرنے لگیں۔ دہلی میں دیکھ لیں وائرل ہونے والی ویڈیو میں کس طرح ایک بندر لٹیے ہوئے کچھ کھا بھی رہا ہے اور ہاتھ میں پکڑے موبائل کو استعمال کرتے ہوئے دل پسند ویڈیو اور تصاویر بھی دیکھ رہا۔ کہتے ہیں بندر جانوروں میں سب سے زیادہ اپنی حرکات و سکنات اور ذہانت سے انسانوں کے قریب ہے۔ اب تو یہ بات ثابت بھی ہو رہی ہے۔ کیا پتہ آنے والے چند سالوں میں یہ مخلوق بھی ٹک ٹاک‘ فیس بک اور انسٹاگرام چلانے میں مہارت حاصل کر لے یا پھر ہماری موبائل بنانے والی کمپنیاں ایسے موبائل فونز بنانے میں کامیاب ہو جائیں جو بندر‘ بلی یا کتا بھی باآسانی چلا سکے اور انسانوں کی طرح کام چور ہڈ حرام ہو کر سارا سارا دن اپنے اپنے موبائلز فونز پر فلمیں‘ گانے ڈرامے دیکھنے لگیں۔ اس پر لوگ کہیں گے کہ لو جی اب تو یہ بھی خراب ہونے لگے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن