• news
  • image

قوم متعلقین کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی منتظر ہے

پنجاب میں انتخابات کے لئے حکومت کی جانب سے الیکشن کمشن کو سپریم کورٹ کی مقرر کردہ -10 اپریل تک کی میعاد میں 21 ، ارب روپے جاری نہیں کئے جا سکے اور نہ ہی الیکشن کمشن کو مطلوبہ سیکورٹی فراہم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ الیکشن کمشن نے اس سلسلہ میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ یہ رپورٹ جو سربمہر ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور بنچ کے دوسرے دو فاضل ارکان مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اور مسٹر جسٹس منیب اختر کو بھجوائی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے پنجاب کے -14 مئی کے انتخابات کے لئے صرف 75 ہزار اہلکار فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے بقول پنجاب کے پاس 3 لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کی کمی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے انتخابات التواء کیس میں پنجاب کی تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کے لئے -14 مئی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو -10 اپریل تک 21 ، ارب روپے کے فنڈز الیکشن کمشن کو منتقل کرنے اور اسے سیکورٹی انتظامات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی اور اس بارے میں الیکشن کمشن کو -11 اپریل کو رپورٹ پیش کرنے کا پابند کیا تھا۔ 
پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات ہی وہ ایشو ہے جس پر ملک کی سیاست اور اعلیٰ عدالتی ایوانوں میں ہلچل مچی ہے۔ اس سے ملک میں بھی انارکی اور خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہوتے نظر آئے اور ریاستی آئینی ادارے بھی اس ہلچل سے محفوظ نہ رہ سکے اور عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے جبکہ اس کیس کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے استعمال کا بھی سوال اٹھا اور عدالت عظمیٰ کے اندر برادر ججوں کے فاضل چیف جسٹس کے ساتھ سخت تحفظات بھی سامنے آئے۔ 
حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین نے نہ صرف اس صوابدیدی اختیار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ عدالتی اصلاحات کا بل پیش کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور بھی کرا لیا۔ حکومت کی جانب سے صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا گیا بلکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی انتخابات التواء کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور پھر قومی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کرا کے اس فیصلہ کو مسترد کرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر حکومت کی جانب سے الیکشن کمشن کو مالی اور سکیورٹی کی معاونت فراہم کرنے سے متعلق عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بنچ کے احکام کی تعمیل سے گریز کیا جا رہا ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کے اندر سینئر پیونی جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چار دوسرے فاضل ججوں نے جو اس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے /9 رکنی ، سات رکنی اور پانچ رکنی بنچوں کا حصہ تھے، اس کیس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود اختیار کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کے خلاف اپنے الگ الگ نوٹ تحریر کر کے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دیا اور باور کرایا کہ اس معاملہ میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ چار / تین کی اکثریت سے صادر ہوا ہے اور تین / دو کا فیصلہ درحقیقت اقلیتی فیصلہ ہے۔ اس معاملہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ بھی صادر کیا جس کے تحت انتخابات التواء کیس سمیت سیاسی نوعیت کے تمام مقدمات کی سماعت روکنے کی ہدایت کی گئی جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی زیر ہدایت ایک سرکلر جاری کر کے اس ہدایت کو غیر موثر قرار دے دیا۔ بعدازاں چیف جسٹس کے تشکیل کردہ عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے بنچ کے احکام کالعدم قرار دے دئیے جسے فاضل جج نے چیف جسٹس کو بھجوائے ایک مراسلہ کے ذریعے چیلنج کیا اور باور کرایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کسی سرکلر یا چھ رکنی بنچ کے ذریعہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ قبل ازیں مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنا مفصل نوٹ جاری کر کے عدالت عظمیٰ کے مخصوص بنچوں کی تشکیل اور چیف جسٹس کے ازخود اختیار کا سوال اٹھایا اور قرار دیا کہ عدالت کو سیاسی مقدمات کی سماعت سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے عدالت ہر صورت ہارتی ہے۔ انہوں نے آئین کی دفعہ 184 شق تین کے تحت چیف جسٹس کو حاصل  صوابدیدی اختیارات اور ان اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے مخصوص سیاسی مقدمات کی سماعت کے لئے مخصوص بنچ کی تشکیل سے متعلق معاملات کا جائزہ لینے کے لئے سپریم کورٹ کی فل کورٹ تشکیل دینے کا بھی اپنے نوٹ میں تقاضا کیا۔ 
یہ تمام سیاسی اور عدالتی معاملات ابھی تصفیہ طلب ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کے -14 مئی کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ بھی قائم ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقین کو توہین عدالت کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بادی النظر میں تو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی ہدایات کی بنیاد پر -14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد مشکل ہی نظر آتا ہے جبکہ سیاسی میدان میں اس ایشو پر اپوزیشن پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان طوفان اٹھانے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں جن کی سوشل میڈیا ٹیم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ستائش میںاور حکومت مخالف مہم چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپوزیشن کی خواہش سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلہ کی عدم تعمیل پر سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء سمیت پوری پارلیمنٹ کو نااہل قرار دلانے کی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جو سسٹم کو اتھل پتھل ہونے سے بچانے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی، عسکری اور عدالتی قائدین کے باہم غور و فکر کا متقاضی ہے۔ 
اس سلسلہ میں فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے اختلاف رائے رکھنے والے اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ ملاقاتوں اور انہیں اپنے ساتھ بنچوں میں شامل کرنے کے اقدام سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکاآتا محسوس ہوا ہے اور سینئر پیونی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی فاضل چیف جسٹس کے ساتھ ہونے والی دو ملاقاتیں معاملات کی گتھی سلجھانے میں نتیجہ خیز بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم جو سنجیدہ سوالات چیف جسٹس کے ازخود اختیارات ، مخصوص بنچوں کی تشکیل اور عدالتِ عظمیٰ کے دو مختلف بنچوں کے صادر ہونے والے ایک دوسرے کے متضاد فیصلوں کے باعث اٹھے ہیں وہ مناسب عدالتی فورم پر ہی تصفیہ کے متقاضی ہیں۔ یہ مناسب فورم سپریم کورٹ کی فل کورٹ ہی ہو سکتی ہے جس کے ذریعے برادر ججوں کے مابین ایک دوسرے کے معاملہ میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہو سکتا ہے اور حکومت کو ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کے لئے راستہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ کٹھن آئینی ، عدالتی اور سیاسی معاملات سے ریاستی آئینی اداروں کے تقدس اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عہدہ براء ہونے کے لئے بہرصورت تمام فریقین کے مابین افہام و تفہیم ضروری ہے بصورت دیگر ہماری اندرونی کمزوریاں اور انتشار و خلفشار کی کیفیت ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو پاکستان کی سلامتی اور جمہوری نظام کو تاراج کرنے کی سازشوں کی تکمیل کے لئے انتہائی نرم چارہ فراہم کر رہی ہے۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن