• news
  • image

ماہ ِ صیام میں مانگی ایک اضافی دعا

ماہ صیام کی ان بابرکت اور مبارک ساعتوں میں دنیا بھر میں امت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی‘ ایمان کی مضبوطی‘ دنیا میں امن‘ بیماروں کی صحت یابی اور دکھی انسانیت کی خوشحالی کیلئے جہاں خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے کا سلسلہ جاری ہے‘ وہاں ان دعائوں میں میں نے اس مرتبہ ایک اور اضافی دعا بھی شامل کی ہے۔ ہر شب کو مانگی میری یہ دعا گزشتہ رمضان المبارک میں مانگی ان دعائوں سے کہ ’’اے پروردگار! برطانیہ میں ہمیں چاند دیکھ کر ایک ہی دن عیدالفطر منانے اور بعض مساجد میں کرسیوں اور عہدوں کیلئے اراکین کمیٹی اور نمازیوں کے مابین جاری طویل مفاداتی جنگ اور غیرمسلموں کے سامنے تماشا بننے سے محفوظ فرما۔‘‘ مختلف ہے۔ اپنی یہ اضافی دعا اس مرتبہ میں اپنے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاء و سلامتی و استحکام کیلئے مانگ رہا ہوں جس کا وجود اسی ماہ مبارک میں عمل میں آیا۔ اس اضافی دعا کی ضرورت ان مبارک راستوں میں اس لئے بھی محسوس کی ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے اپنے وطن کے روزافزوں متاثرہ معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی حالات اور بعض قومی اداروں کا بعض مفاد پرست سیاست دانوں نے جس طرح جنازہ نکالا‘ حالات متقاضی ہیں کہ یہ دعا مانگی جائے۔ یہ اضافی دعا مانگنے کی دوسری وجہ میرا گورا دوست فریڈ بھی بنا ہے جس نے رمضان المبارک کے آغاز پر مجھے ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی تہنیتی پیغام کیلئے خصوصی طور پر فون کیا۔ دنیا بھر میں امن و سلامتی کی دعا کے ساتھ ہی اس نے اپنی گفتگو کا رخ پاکستان کے موجودہ انتہائی مخدوش سیاسی و معاشی حالات کی جانب موڑ لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس Blessed ماہ میں اپنے رب سے تم اپنی کوتاہیوں کی جہاں معافی مانگ رہے ہو‘ وہیں تمہیں اس مرتبہ اپنے آبائی وطن پاکستان کی سا  لمیت‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے بھی دعا مانگنا ضروری ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے دیئے گئے حالیہ فیصلے پر موجودہ حکومت کو دیئے احکامات پر فوری عمل پیرا نہ ہونے کی بناء پر پاکستان سنگین آئینی بحران سے ہی نہیں‘ معاشی اور اقتصادی بحران سے بھی دوچار ہو سکتا ہے جس سے غیرآئینی اور غیرجمہوری رویے جنم لے سکتے ہیں۔ مختلف اقتصادی اور مالی عالمی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مجموعی حالات اگر آئندہ چند ہفتوں میں تبدیل نہ ہوئے تو آپ کے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات میں یقیناً اضافہ ہو سکتا ہے۔ اپنے اس بزرگ گورے دوست کا وطن کے حوالے سے کیا یہ سیاسی تجزیہ میں پوری توجہ اور انہماک سے سن رہا تھا کہ غیرمسلم ہوتے ہوئے بھی اسے ماہ صیام میں خشوع و خضوع سے مانگی میری دعائوں پر یقین تھا۔ اس نے مجھ سے میرے وطن کی سلامتی کیلئے دعا کی درخواست  کی تھی جو میرے لئے واقعی ایک اعزاز تھا۔ 
ہاں! تو میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے معاشی اور سیاسی مسائل پر شائع ہونیوالی مختلف رپورٹس کے تناظر میں جو سیاسی اور اقتصادی نقشہ پاکستان کا میں دیکھ رہا ہوں‘ وہ اب کچھ زیادہ مستحکم نظر نہیں آرہا۔ پاکستان جو بلاشبہ ایک ایٹمی قوت ہے‘ اپنے محدود وسائل کے باوجود عالمی فورمز میں اسکی آواز ہے۔ اسلامی دنیا کو لیڈ کررہا ہے‘ مغربی دنیا سے بہترین تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے مگر! مگر دو بار مگر دہرانے کے بعد فریڈ خاموش ہو گیا۔ مجھے اسکی اس خاموشی پر حیرت ہوئی۔ مگر کیا؟ میں نے پوچھا۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ میں اس نے کہا کہ مگر کا مطلب یہ کہ آپ کے ملک میں دیگر متعدد بحرانوں کے بعد اب آئینی بحران نے بھی ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ عوام‘ حکومت اور اداروں میں عدم استحکام واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ سیاست دانوں میں سیاسی ہم آہنگی اور قوم برداشت جواب دے چکی ہے۔ دنیا کے مہذب جمہوری ممالک میں سیاست دان سیاسی کشیدگی کو صرف سیاست تک محدود رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا یہ حسن ہوتا ہے مگر آپکے آبائی ملک میں بعض سیاست دان اب ذاتی دشمنی اور انتقام لینے کا روپ دھار چکے ہیں جس سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ملک کی سپریم کورٹ کا صوبائی انتخابات کے حوالہ سے دیا حالیہ فیصلہ میری نظر سے بھی گزرا ہے۔ بلاشبہ عدالت عظمیٰ اور اسکے فیصلوں کا احترام عام شخص پر ہی نہیں‘ سیاست دانوں اور بیورو کریٹس سمیت ہر ادارے پر لازم ہے کہ آئین کی بالادستی سے ہی جمہوریت کو استحکام ملتا ہے۔ مگر افسوس! سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں پر حکومتی اراکین متفق ہوتے نظر نہیں آرہے۔ 
بزرگ دوست کا تجزیہ واقعی حقیقت پسندانہ تھا اور یہ شاید اس لئے بھی کہ وہ قیام پاکستان کے دوران سیالکوٹ میں اہم ترین عسکری خدمات سرانجام دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ من حیث القوم قوت برداشت ہم کھو چکے ہیں۔ جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں اسکی دین اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا۔ 
پشاور کے رہائشی نریندر دیال سنگھ کو جو مقامی کریانہ فروش تھا‘ اگلے روز محض اس لئے مبینہ طور پر گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا کہ ماہ صیام کے تقدس میں مسلمان دکانداروں کے مقابلے میں وہ کم قیمت پر اشیاء فروخت کرکے اس مبارک مہینے کا احترام کر رہا تھا۔ آئی جی پختونخوا کی نظر سے اگر یہ سطور گزریں تو میری ان سے درخواست ہوگی کہ اس قتل کی وہ خود تحقیقات کریں تاکہ اس بہیمانہ قتل کے اصل محرکات سامنے لائے جا سکیں۔ 
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن