کہ ادارے تمام شد
حضور والا! اگر آپ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ بھی جاتے توکیاحرج تھا۔آخر آپ کے باقی ساتھی بھی تو دعوت نامہ ملنے کے باوجود نہیں گئے ،صرف ادارے کی غیر جانبداری کا اظہار کرنے۔ اور اگر آپ چلے بھی گئے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ منتخب ارکان کے درمیان کیسے بیٹھ گئے۔مہمانوں کے لئے تو الگ گیلری ہوتی ہے۔اس سے پیشتر بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی اجلاسوں میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان جاتے رہے ہیں مگر وہ مہمانوں کی گیلری میں ہی تشریف رکھتے تھے۔آپ نے تو تاریخ بنادی۔کیا آئین کی گولڈن جوبلی منانے کی کسی تقریب کیلئے آپ کو سپریم کورٹ یاکسی اور ہائی کورٹ یاکم ازکم بلوچستان ہائی کورٹ میں کوئی جگہ نہ مل سکی یا ان تمام جگہوں پر آپ کوکسی قسم کا کوئی اندیشہ تھا۔آپ تو قاضی ہیں افتخار چوہدری صاحب کا عطاکردہ ترازو آپ کے ہاتھ میں ہے،جسے کسی جانب نہ آپ کی باتوں سے نہ آپ کی باڈی لینگویج سے یا کسی قسم کے اشاروں سے جھکنا چاہیئے۔مگر آپ اسمبلی میں وزراء کے لئے مخصوص نشستوں پر پروفیسر بن کر لیکچر دیتے رہے۔شائد آپ سمجھتے ہوں کہ ایوان کے ارکان کو آئین کی بابت لاعلمی کے سوا کیس چیز کاعلم نہیں ہے۔یاپھر آپ کسی نئے "انقلاب"کی نوید سنانے گئے تھے۔صرف اتنا فرما دیں حضور والا کہ اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے کوئی قابل احترام جج صاحب قومی اسمبلی کے اجلاس کوخطاب کرنے گئے ہوں۔آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کی خوشی میں چلے گئے توظاہر ہے کہ آئین کی کبھی سلور جوبلی بھی منائی گئی ہوگی۔ذرا یہ فرمادیں کہ تب سپریم کورٹ کے کون سے جج صاحب اسمبلی میں خطاب کرنے گئے تھے۔آپ کے شوق خودنمائی نے ملک کے دیگر اداروں کوبھی نقصان پہنچایا۔اتنا کہ کاش آپ جان سکتے۔وہ تمام لوگ جن کے مقدمات سپریم کورٹ اوردیگر ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جو ضمانتوں پر رہا ہیں یاخود ضامن ہیں یاجوسزا یافتہ ہیں، ان کے درمیان کھڑے ہوکرآپ آئین کی کتاب لہرا کراس کی بالا دستی کی بات کریں گے تو کون مانے گا اورآپ کی بات کی اپنی اہمیت کیا ہوگی۔میرے محترم قاضی صاحب یہ واقعہ آپ نے اس سے قبل اگرنہیں سنا توسنائے دیتا ہوں کہ ایک بار وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خاں نے جو چیف جسٹس میاں عبدالرشید سے خیر سگالی ملاقات کرناچاہی ،پیغام بھیجا توانہوں نے اپنے عملے سے پوچھا کہ عدالت میں کوئی مقدمہ حکومت پاکستان کے خلاف تونہیں ہے۔جواب ملا کہ چند ایک مقدمات ان کی عدالت اورکچھ ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔چیف جسٹس میاں عبدالرشید صاحب نے یہ کہہ کروزیر اعظم لیاقت علی خاں سے ملنے سے انکار کردیا کہ چونکہ میری عدالتوں میں حکومت کے خلاف کچھ مقدمات زیر سماعت ہیں اسلئے میں آپ سے نہیں مل سکتا۔وزیر اعظم بھی ناراض ہوئے بغیر کسی دوسرے کام میں مصروف ہوگئے۔حالانکہ لیاقت علی خاں کی ذات کے خلاف کوئی مقدمہ کسی عدالت میں زیر سماعت نہیں تھا صرف حکومت پاکستان کے تھے۔پارلیمنٹ عدلیہ اور افواج ایسے ادارے جنہیں عوام کی نظر میں بڑاتقدس حاصل ہوتا ہے۔اگرچہ حکومت بھی ایک معتبر ادارہ ہے مگر اسے کبھی بھی عوام کی نظر میں اس لئے تقدس حاصل نہیں ہوسکا کہ ان کے مسائل کبھی بھی کوئی حکومت مکمل طورپر حل نہیں کرسکی ،یہاں تک کہ آئین پاکستان پر نہ صرف عملدرآمدنہیں کراسکتی بلکہ غیر آئینی امدامات سے اپنا تقدس کھودیتی ہے۔رہی پارلیمنٹ تو وہ اپنا وقار ہمیشہ اپنے ارکان کی وجہ سے کھوتی رہی ہے۔خاص طورپر 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اورن لیک کے درمیان کھیلے جانے والے"باندر کلے"نے نہ صرف پاکستان کے دیگر اداروں کونقصان پہنچایا بلکہ سال بہ سال بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں اوراس کے ارکان کی خرید وفروخت اور کمیشن نے بھی پارلیمنٹ کا تقدس (اگر کوئی تھا)پا مال کردیا۔سیاسی جماعتوں کے سیاست خانے بالاخانے بن گئے جہاں بدمعاشوں ،قبضہ گروپوں ،منشیات فروشوں ،ٹیکس چوروں اورسرکاری نوکریاں بیچنے جم کردھمال ڈالتے رہے اورپھران مکروہ حرکات سے باز آنے کی بجائے انہوں نے"منی لانڈرنگ"کے نام سے ایک نئی فائونڈری بنالی۔جھوٹ ،مکاری ،تہمت،مخالفین کے خلاف مقدمات کی بھر مار،جیلیں ،پیشیاں،TVپر بحث کے نام پر مزاحیہ پروگرام اورسیاست کے نام پرغیر سیاسی حرکات اور غیر ذمہ دارانہ زبان انہی ارکان پارلیمنٹ کی بدولت سکہ رائج الوقت قرارپایا۔اسی طرز عمل سے قوم کا مذاق پست ہوگیا۔،اس کانظارہ کرناہوتو سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پوسٹ ،تبصروں ،فلموں اورٹک ٹاک سے کیاجاسکتا ہے۔مزید نظارہ کرنا ہو تو کسی مخالف سے سیاسی بحث یاتبصرے کاہی آغاز کرلیں ،آپ کی یامخالف کی آنکھیں ابل کرباہر نکل آئیں گی۔ماتھے کی شکن تومعمولی بات ہے زبان کاخنجر آپ کو زخمی کردے گا۔یوں محسوس ہوگا کہ ملک میں صرف دوہی قومیں بستی ہیں ایک وہ جومیرے ساتھ ہے اوردوسری وہ جوساتھ نہیں ہے۔مگر یہ کیاعجب ہواکہ ایسے دریدہ دہن، کوڑھ مغز، اوربانجھ بصیرت کے حامل لوگوں کے درمیاں ایک مقدس ادارے کا ایک فردیہ کہہ کرچلاگیا کہ مجھے مدعو کیا گیاہے حالانکہ اگرادارے کاسربراہ نہیں گیاتو آپ بھی معذرت کرلیتے اورپھر جن لوگوں کے درمیاں جاکر آپ نے اپنے تئیں اچھی باتیں کیں کیا ان سے آپ کوگھن نہیں آئی۔ہمارے ہاں سماجی ادارے تباہ ،تقافتی ادارے برباد ،معاشی ادارے رہن شدہ ،مذہبی ادارے راہ گم کردہ ،عوامی ادارے کرپٹ،تجارتی ادارے دوزخ کاسامان ،تعلیمی ادارے مہنگے ،کارخانوں کے ادارے ناپید اورعدالتی ادارے اگر انصاف سے عاری ہوئے ہیں توسمجھ لیجیئے کہ کوئی مقدس ادارہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا ایسے میں قاضی صاحب آپ کو قومی اسمبلی میں نہیں جانا چاہیئے تھا۔اسمبلی کی بجائے آپ اپنے ادارے پر توجہ دیتے تو بہتر تھا جسے آج کل کسی کی نظر لگ گئی ہے۔قومیں اداروں سے زندہ رہتی ہیں۔ادارے علم وفکر اورکردار کی روائت سے قائم ہوتے ہیں ان کی عدم موجودگی سے ختم ہوجاتے ہیں اورقومیں بھی۔