• news

محترم جسٹس صمدانی یاد آتے ہیں

آج جب کہ سوہنی دھرتی اپنی تاریخ کے سنگین ترین اخلاقی پارلیمانی معاشی اور عدالتی بحران سے گزر رہی ہے۔پارلیمینٹ اور سپریم کورٹ حالت جنگ میں ہیں محترم جسٹس کے ایم اے صمدانی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔میری ان سے پہلی ملاقات واصف علی واصف کی برسی کی ایک تقریب میں ہوئی۔ محترم جسٹس صمدانی کی خوشبودار اور روح افزاء شخصیت نے مجھے اپنی محبت کا اسیر کرلیا۔ باہمی احترام کا ذاتی تعلق خاندانی تعلق میں تبدیل ہوگیا۔ان کو دار فانی سے رخصت ہوئے دس سال کا عرصہ گزر گیا مگر ان کی لازوال یادیں آج بھی دل میں تازہ ہیں اور پرخلوص خاندانی روابط آج بھی قائم ہیں۔ان کی دس سالہ صحبت رفاقت اور مشاہدے کی بنا پر پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حکیم الامت علامہ اقبال کے تصور مرد مومن کی خوبیاں محترم جسٹس صمدانی کی شخصیت اور کردار میں موجود تھیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
صمدانی صاحب نے سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جوڈیشل سروس کا انتخاب کیا پنجابی فاضل کا امتحان پاس کیا تاکہ عام آدمی کی بات سمجھ سکیں۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنی باوقار اور مہذب زندگی کے کئی واقعات شیئر کئے۔وہ سیالکوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے منصب پر فائز تھے ۔ پاکستان کے انمول چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس ڈسپنسری کا افتتاح کرنے کے لیے سیالکوٹ پہنچے ان کا دورہ نجی نوعیت کا تھا لہٰذا صمدانی صاحب ان کے استقبال کے لیے نہیں گئے محترم جسٹس کارنیلیسں جنٹلمین جج تھے لہٰذاا انہوں نے بھی صمدانی صاحب کی غیر حاضری کو محسوس نہ کیا۔ سردیوں کے موسم میں ایک دن صمدانی صاحب عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت کر رہے تھے کہ ایک خاتون نے ان کو ایک بند لفافہ دیا اور کہا کہ یہ خط جنرل ایوب خان کی والدہ نے بھجوایا ہے۔ مرد مومن نے بند لفافہ جلتی ہوئی انگیٹھی میں ڈال دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے سخت ترین مارشل لاء کے دوران محترم جسٹس صمدانی نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضمانت پر رہا کردیا۔ ان کی پختہ رائے تھی کہ چاہے عدالتی فیصلے کے بعد آسمان گرنے کا اندیشہ ہو آزاد ذہن رکھنے والے جج کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ۔جب وہ لاہور ہائیکورٹ بار کی صدارت کا انتخاب لڑ رہے تھے تو پی پی پی سے وابستگی رکھنے والے وکلاء نے کہا کہ آپ نے چونکہ ہمارے لیڈر کی ضمانت لی تھی اس لئے ہم آپ کو ووٹ دیں گے۔ صمدانی صاحب نے کہا کہ میں نے ضمانت میرٹ پر منظور کی تھی لہٰذا آپ بھی مجھے ووٹ میرٹ پر دیں۔جنرل ضیاء الحق منتقم مزاج آمر جرنیل تھا۔ اس نے بھٹو صاحب کی ضمانت کے بعد صمدانی صاحب کو لاہور ہائی کورٹ سے فارغ کرکے وفاقی لا سیکرٹری تعینات کردیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وفاقی سیکرٹریوں کا ایک اجلاس طلب کیا اور اقتدار کے نشے میں سیکریٹریوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔میٹنگ روم میں سناٹا چھا گیا صمدانی صاحب یہ توہین برداشت نہ کر سکے اور آمر جرنیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہی بات جرنیلوں کے بارے میں کہہ دی جو اس نے وفاقی سیکرٹریوں کے بارے میں کہی تھی۔امر جرنیل اس جرأت اظہار پر د نگ رہ گیا ۔ وفاقی سیکرٹریوں نے محترم جسٹس صمدانی پر معذرت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ۔ نڈر دلیر اور بے باک مرد مومن نے معذرت کرنے سے انکار کر دیا-قرآن کے مطابق جو لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں اللہ اپنے ان دوستوں کے دلوں سے خوف اور رنج کو نکال دیتا ہے۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
محترم جسٹس صمدانی 1980 میں لاہور ہائیکورٹ واپس آگئے۔ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ جنرل ضیا الحق نے ججوں کو نیا حلف لینے کے لیے حکم جاری کیا جو آئین سے کھلا انحراف تھا۔ اپنے برادر ججوں کے دباو کے باوجود صمدانی صاحب نے نیا حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں آئین سے وفاداری کا حلف کیسے توڑ سکتا ہوں۔
میں تو اخلاق کے ہاتھوں ہی بکا کرتا ہوں
اور ہوں گے تیرے بازار میں بکنے والے
جب صمدانی صاحب نے غیر آئینی حلف اٹھانے کی بجائے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا اس وقت ان کے بینک اکاؤنٹ میں چند سو روپے تھے۔جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اللہ ان کے لیے حیران کن اسباب پیدا کر دیتا ہے۔جب صمدانی صاحب نے وکالت شروع کی تو ان کی آمدنی جج کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی۔صمدانی صاحب کہتے تھے کہ جج کو جینٹلمین اور صرف جینٹلمین ہونا چاہیے اور تھوڑا بہت قانون بھی جانتا ہو تو ٹھیک۔ وہ عزت نفس کو بڑی اہمیت دیتے اور کہتے کہ زندگی اور عزت میں ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو عزت کا انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ عزت ایک بار ختم ہو جائے تو پھر دوبارہ نہیں ملتی اور زندگی کا کیا اعتبار اگلا سانس آئے یا نہ آئے۔محترم جسٹس صمدانی کو اگر اپنے مرشد بابا عبیداللہ خان درانی کی روحانی سر پرستی اور اپنی باوقار دانشمند بیگم شمیم صمدانی کا پر خلوص اور پرعزم تعاون حاصل نہ ہوتا تو ان کے لیے زندگی کے پل صراط سے کامرانی کے ساتھ گزرنا ممکن نہ ہوتا۔ صمدانی صاحب اپنی آخری عمر میں مادر وطن کی زبوں حالی کے سلسلے میں بڑے رنجیدہ رہتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستانی قوم کو سیاسی معاشی قبلہ درست کرنے کے لئے" بے رحم مسیحا" کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن