اسلام: امن کا دین
تحریک طالبان پاکستان ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے جانی جاتی ہے اور اپنے اس مقصد کیلئے اس دہشت گرد تنظیم نے دین کا استعمال کیا ہے۔ یہ تنظیم اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو دین کے لبادے میں اوڑھ کر کرتی ہے۔لیکن جب اس تنظیم کے اعمال پر نظرڈالیں تو یہ دین سے دور دکھائی دیتی۔ کچھ عرصہ قبل بھی ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی نے ایک پیغام کے ذریعے علما سے رائے مانگی تھی کہ کیا ہم جو دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں وہ جہاد ہے یا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ نور ولی نے پاکستانی علما سے پوچھا تھا کہ ہم جو جہاد کر رہے ہیں کہ اس میں کوئی کمی کوتاہی یا خرابی نظر آتی ہے یا آئی ہو تو ہماری رہنمائی فرمائیں اور اس کے علاوہ اگر ہمارا جہاد دین کے تقاضوں کے عین مطابق ہے تو ہمیں دہشت گرد کہنا چھوڑ دیا جائے۔ ٹی ٹی پی بنیادی طور پر دین کو ہی اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے یہ نام نہاد عالم دین خود کو کس طرح دین کا عالم کہلوا سکتے ہیں۔ عالم تو علم حاصل کرنے سے بنتا ہے اور یہاں تو اس تنظیم میں جو جتنا بڑا فتنہ فساد برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا وہ اتنا بڑے منصب کا حقدار ہو گا۔ عالم کے لقب کا مستحق ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد عناصر میں سے کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ عالم علم سے بنتا ہے فراڈ، جھوٹ اور دہشت گردی سے نہیں۔ٹی ٹی پی اپنے نام نہاد عالم دین سے جعلی فتوے لگوا کر دین کے غلط تصور کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔وہ فرد جس کے پاس جدید سائنسی اور دنیاوی علم نہ ہو اور اس کا نفاذ شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو ایک عالم ہر گز نہیں کہلایا جا سکتا۔ ٹی ٹی پی قیادت کی دلچسپی صرف طاقت اور پیسے سے ہے، جبکہ نچلے طبقے کو جہاد کے نام پر اکسایا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کو بھارتی ایجنسی را کی طرف سے امریکی ڈالر ماہانہ ادا کیے جا رہے ہیں اور ان کے خاندان پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ٹی ٹی پی کے نام نہاد علما کے تصور کو حقیقی علما نے رد کیا ہے۔بنیادی طور پر ٹی ٹی پی امریکہ کے حملے کو جواز بنا کر فاٹا اور اس سے منسلک علاقوں میں اپنی دہشت گرد ی کی کارروائیوں کے ذریعے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے یہ سب کر رہی ہے۔ یہ تنظیم چاہتی ہے کہ پاکستان کے علما نفاذ شریعت کے نام پر اس کی دہشت گردی کی کارروائیوں کو دینی تحفظ فراہم کریں لیکن اس دہشت گرد تنظیم کی یہ خواہش پاکستانی علما نے رد کر دی ہے جس کے بعد یہ تنظیم از خود سے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو فتوے کی آڑ فراہم کر نے کی کوشش میں ہے۔ تقریبا اڈھائی ماہ قبل مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں ہونے والی پیغام پاکستان کانفرنس میں بھی علما نے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو رد کرتے ہوئے انہیں جہاد کی بجائے دہشت گردی کی کارروائیاں قرار دیا ہے۔ تمام مسالک کے علما کا متفقہ اعلامیہ یا فتوی جاری ہوا کہ وہ ٹی ٹی پی کی پاکستان کیخلاف ہونے والی کارروائیوں کی حمایت نہیں کر سکتے۔مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ یہ اجتماع اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان مسلمان ریاست ہے، پاکستان کا دستور اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دیتا ہے، پاکستان کا دستور ایسا ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پایا جاتا۔مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ریاست کے خلاف کوئی مسلح کارروائی کھلی بغاوت ہے، ریاست پاکستان کیخلاف کوئی مسلح کارروائی ناجائز اور حرام ہے، پاکستان کے علما پاکستان کے خلاف کسی مسلح کارروائی کی تائید نہیں کر سکتے۔مفتی تقی عثمانی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات نے 20 سال تک اسلحہ اٹھایا، بچوں، عورتوں اور علما کوبھی نہیں بخشا، آپ بتائیں کیا 20 سال کی اس جدوجہد سے کوئی ادنیٰ تبدیلی آئی؟ آپ کیوں مصر ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف بندوق اٹھائے رکھنا ہے۔مفتی اعظم پاکستان کے اس پیغام کے بعد تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد جماعت ہے، جو اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے تاکہ عوامی تائید لے سکے اور جو ہمسایہ ملک بھارت کی فنڈنگ سے ملک کے حالات خراب کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں نے کئی ایسی کارروائیاں کی ہیں جن میں اس تنظیم کا غیر ملکی مالی نیٹ ورک بے نقاب ہوا ہے۔ اس تنظیم کے سرکردہ دہشت گرد وں کے خاندان پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور یہ سب پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ظاہر ہے کہ بھارت کی فنڈنگ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پھر اس تنظیم کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے جب کہ اس تنظیم کا نہ کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی سیٹ اپ کہ جس کی بنیاد پر یہ کمائی کر سکے۔ تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تنظیم بیرونی فنڈنگ اور جرم سے پیسہ بنا رہی ہے۔یہ اپنی عیاشیوں کیلئے اور اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے دین کا نام استعمال کر رہے ہیں لیکن اب ان کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہونے والی کیوں عوام اور خصوصا پاکستان کے علما بھی اس دہشت گرد جماعت کی حقیقت کو جان چکے ہیں۔اس لئے اس جماعت کو اب دین کی خاطر اپنی یہ روش چھوڑ کر امن کا راستہ اپنانا چاہئے کیوں کہ ہمارا دین تو ہمیں درختوں تک کو کاٹنے سے منع کرتا ہے وہ دین کیسے اپنے مسلمان بھائیوں کو مارنے کی اجازت دے سکتا ہے۔