سراج الحق اہم مشن پر!!!!!
امیر جماعت اسلامی سراج الحق ملک میں سیاسی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس بے دردی سے آمنے سامنے ہیں اور الزام تراشیوں کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں اس کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی خود کشی کے سفر پر ہیں۔ کوئی یہ سوچنے سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ اس سیاسی شدت پسندی کا ملک کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے، نظام کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے اور پہلے سے ہی کمزور معیشت کی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔ سیاسی عدم استحکام اور سیاسی شدت پسند رویوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو ان معاملات سے کچھ غرض نہیں ہے بلکہ سب کو اپنی باری کی فکر ہے۔ سب کا مقصد صرف اور صرف اقتدار ہے اور ہر حال میں صرف اقتدار ہے۔ کوئی اس اقتدار سے کم بات کرنے کو تیار نہیں، کوئی سیاسی حریفوں کو کچلنے سے کم پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ریاستی اداروں کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ ہر جگہ انتشار نظر آ رہا ہے ان حالات میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھ آنی چاہیے کہ جو مرضی کر لیں، منہ بنائیں، الزامات عائد کریں، مقدمات بنائیں، مخالفین کو جیل میں ڈالیں، عوامی سطح پر نفرت پھیلائیں لیکن آخر کار گفتگو کے ذریعے ہی معاملات طے پاتے ہیں، مسائل حل ہوتے ہیں۔ اس لیے لڑنے جھگڑنے سے بہتر ہے جلد از جلد مذاکرات بامقصد بات چیت کا آغاز کریں اور قوم کو اس مصیبت سے نکالیں۔
گذشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے ملاقات میں سیاسی صورتِحال پر گفتگو ہوئی اور میاں شہباز شریف اور سراج الحق نے اجتماعی دانش سے مسائل کے حل پر اتفاق کیا۔ اس اہم ملاقات کے بعد سراج الحق نے زمان پارک جا کر سابق وزیراعظم، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورتِحال پر گفتگو کی۔یاد رہے اس سے قبل اسد عمر کی قیادت میں پی ٹی آئی وفد کی سراج الحق سے ملاقات میں ہوئی تھی۔ موجودہ حالات میں ایسی کوششوں کی شدت سے ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت کو نازک حالات میں سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ سیاسی اختلافات میں اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے کہ واپسی کا راستہ ہی نہ رہے۔ سیاست دان جگہ خالی کر رہے ہیں پھر یہ جگہ کوئی اور بھر دیتا ہے تو سب کو برا لگتا ہے۔ خالی جگہ کوئی اور نہ بھرے سراج الحق اسی کوشش میں ہیں لیکن یہ کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں اور سب کے سب ایک ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے اس وقت تک بہتری کا امکان نہیں لیکن سراج الحق کی یہ کوششیں قابل قدر ہیں۔ یہ امید بھی رکھی جانی چاہیے کہ سیاست دانوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آئے وہ عقل اور سمجھ بوجھ سے کام لیں اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیں۔ ہر حال اقتدار میں جانے کی سوچ ترک کریں اور ملک کو درپیش مسائل کے لیے کام کریں۔
ان ملاقاتوں کے بعد مثبت پیشرفت یہ ہوئی کہ حکومت اور تحریک انصاف نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی پہلے وزیر اعظم شہباز شریف اور پھر عمران خان سے ملاقات کی پھر یہ بھی کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی ایک دن الیکشن کرانے کے ایجنڈے پر مل بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن اس دوران فواد چوہدری کا بیان سامنے آتا ہے جس میں وہ نامناسب انداز میں مفاہمت یا مذاکرات کی کوششوں پر طنز کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی وقلوں کو بالخصوص اس حوالے سے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ کیونکہ بنی بنائی بات کو بگاڑنے کا فن اگر کسی کو آتا ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے۔ ان لوگوں میں تحمل نام کی کوئی چیز نہیں ہے اگر کوئی ایک شخص گرفتار ہو بھی گیا ہے تو اس کا مذاکرات کی کوششوں سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ تو ملک پر رحم کریں، کچھ تو خیال کریں۔ہر معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیں یہ یاد رکھیں کہ سب سے زیادہ یوٹرن آپ ہی لیتے ہیں پھر کیوں مذاکرات کے بنتے ہوئے ماحول کو سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو بامقصد بامعنی بات چیت کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں کہ جب بات چیت آگے بڑھ سکتی ہے فواد چوہدری کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پتا نہیں کیا کر رہے ہیں؟ ان کی ملاقاتوں کے بعد علی زیدی کو اٹھایا گیا ہے۔ شہبازشریف کو نااہل کرانے کا منصوبہ لندن میں بنا ہے۔ ملکی سطح کے مذاکرات کی بات ہو رہی ہے اور انہیں علی زیدی کی فکر پڑی ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر عمران خان نے یہ بھی تو کہا ہے کہ ان کا نظام سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ کیا مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے صرف ایک ہی شخص کافی نہیں ہے۔ اگر علی زیدی پر مقدمہ سیاسی نہیں تو کیوں ادارے انہیں گرفتار نہ کریں کیا قانون نے اپنا راستہ نہیں بنانا۔ اگر انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو پھر مذاکرات کے پیچھے چھپنے کی ضرورت کیا ہے۔ صرف پاکستان تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ حکومتی اتحاد کو بھی بیان بازی سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ایک ساتھ بیٹھنا ہی ہے جب پاکستان ہمارا ہے، ادارے ہمارے ہیں، سیاست دان ہمارے ہیں بات چیت ہم نے کرنی ہے تو پھر بے معنی بیانات سے کیا حاصل ہونا ہے۔
یاد رہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی چند دن قبل وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو اپوزیشن سے مذاکرات کا مشورہ دیا تھا۔ ایک بات طے ہے کہ مسائل بات چیت سے حل ہونے ہیں ملک نے آگے بڑھنا ہے جو بھی طاقت ملک کو آگے بڑھنے سے روکے گی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ جو بھی سیاسی جماعت مذاکرات کے معاملے میں مثبت کردار ادا نہیں کرے گی وہ صرف اپنا ہی نقصان نہیں کرے گی بلکہ وہ ملکی ترقی اور مستقبل کو نقصان پہنچانے کے عمل میں ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ جذباتی نعروں سے باہر نکلیں اور عملی اقدامات کی طرف آئیں۔ آگے بڑھیں سراج الحق کا ساتھ دیں۔