• news

بدھ‘ 28 رمضان المبارک 1444ھ‘ 19 اپریل 2023ء

تحریک انصاف کے مرکزی صدر چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ مہنگا پٹرول ظلم ہے‘ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ گئے ہیں۔ 
چودھری صاحب! آئی ایم ایف کے سامنے صرف اسحاق ڈار ہی نہیں لیٹے‘ انہوں نے اسکے سامنے پوری قوم کو بھی لیٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حیرت اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ لیٹنے کے باوجود آئی ایم ایف ہم سے مطمئن نہیں ہو رہا اور چند ٹکوں کی خاطر پوری قوم کو بدترین ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے جبکہ ایٹمی قوت کے حامل ملک کی خودمختاری کو الگ بٹہ لگ رہا ہے۔ اس وقت پوری قوم کی خودداری دائو پر لگی ہوئی ہے۔ قوم شاید واقعی شرمندہ نہ ہوتی اگر اب تک لئے گئے قرضوں سے اسکی حالت سدھار دی جاتی مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ قوم مزید نیچے گرتی گئی اور قرض لینے والے بام عروج پر پہنچ گئے۔ آج قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے جبکہ قرض لینے والوں کا بچہ بچہ کھرب پتی۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی ہمارا مذاق بن کر رہ گیا ہے‘ سوشل میڈیا پر جاری اس تصویر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں قرض دینے والے ملک کا وزیراعظم سائیکل پر اپنے دفتر جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب قرض لینے والے ہمارے حکمران گاڑیوں کی لمبی قطار کے ساتھ اپنے دفتر جاتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ دنیا کو ہنسے کا ہم خود موقع فراہم کررہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے لیٹے ہوئے ہمارے کرتا دھرتا اپنے کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو اس ہزیمت سے نجات دلانے کا عزم باندھ لیں تو پھر آئی ایم ایف تو کیا اس جیسے تمام مالیاتی اداروں کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ 
٭…٭…٭
حکومت کی مذاکرات کرنے کی کوئی نیت نہیں‘ یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں‘ شاہ محمود قریشی۔ 
یہ تو اب پوری قوم کہتی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اس کا اندازہ تو شاہ صاحب کو خود بھی بخوبی ہوگا۔ اور اب وہ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ یوٹرن لینے میں تو اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ویسے شاہ صاحب! آپس کی بات ہے‘ حکومت تو کئی بار قومی ڈائیلاگ پر زور دے چکی ہے‘ جس کیلئے خان صاحب ہی آمادہ نہیں ہو رہے۔حکمرانوں کا عوام سے وعدہ کرکے وفا نہ کرنا‘ ہماری سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ شاہ صاحب کی اس بات کی تصدیق تو شیخ رشید احمد بھی اپنی ایک سابقہ وزارت کے دوران کر چکے ہیں کہ اجلاسوں میں فیصلے کچھ کئے جاتے ہیں اور عوام کو کچھ بتایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے آج سیاسی لحاظ سے ہر ایک کو باشعور بنا دیا ہے۔ اب بچہ بچہ سیاست دانوں کی ایک ایک رمز سے واقف ہو چکا ہے۔اس لئے سیاست دانوں کو سیاسی شطرنج کی بساط اب کسی اور رنگ میں جمانی چاہیے۔ کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا‘ مگر ہماری قوم کا المیہ ہے کہ وہ بار بار ڈسے جانے کے باوجود دھوکہ کھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت کو ہی دیکھ لیں‘ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور اسے ریلیف دینے کا عزم لے کر اقتدار میں آئی تھی‘ مہنگائی کم کرنا تو کجا‘ اس نے تو مہنگائی کے عالمی ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ یہ بھی قوم کے ساتھ کہہ مکرنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ماہِ رمضان میں عوام کیلئے جن ریلیف پیکیجز کا شدومد کے ساتھ اعلان کیا گیا‘ وہ  پیکیجزبھی کارگر نہ ہو سکے۔ مفت آٹے کے حصول میں کسی کی ٹانگ گئی تو کسی کا سر‘ کئی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ آٹا پھر بھی ہاتھ نہ آیا۔ تگ و دو کے بعد جن کے ہاتھ آیا ‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ آٹا کھانے کے قابل نہیں۔ قوم کو آٹے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرلینی چاہیے تھیں‘ کیونکہ… شاید جو کپڑے فروخت کرکے قوم کیلئے آٹا لیا گیا ہے‘ انکے عوض ایسا ہی آٹا ملنا تھا۔ 
٭…٭…٭
شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حالات کافی سنگین ہو گئے‘ خواہش ہے کہ فوج سے صلح کرلی جائے۔ 
شیخ صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں‘ لڑائی اپوزیشن اور حکومت کے درمیا ن ہے اور صلح کی خواہش فوج سے کررہے ہیں جس سے کوئی لڑائی ہی نہیں۔ ہمارا ہر جرنیل سیاست دانوں سے یہی درخواست کرتا نظر آتا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘ سیاست دان اپنے معاملات خود نبیڑا کریں۔ پریس کانفرنس ہو یا سیاسی بیان‘ تقریر ہو یا عوامی جلسہ‘ حزب اختلاف اور حزب اقتدار‘ دونوں ایک دوسرے کیخلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں دونوں ہی کے منہ سے لاوا نکل رہا ہوتا ہے‘ جس سے ان کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ اس لاوے میں قوم جل کر بھسم ہو رہی ہے۔ کاش! شیخ صاحب صلح کی خواہش کا اظہار حکمرانوں سے کرتے تو امید پیدا ہوتی کہ ملک میں پھیلا انتشار اب ختم ہو جائیگا۔ سیاست میں جو مغلظات قوم کو سننے کو مل رہی ہیں اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی بلیم گیم ہو رہی ہے‘ اس سے نجات مل جائیگی اور پھر سیاسی قائدین حقیقی معنوں میں قوم کے خادم بن کر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہونگے۔ لیکن شیخ صاحب کی اس خواہش سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ وہ ابھی اس گندی سیاست کو مزید پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اسی لئے تو وہ میدان جنگ کے اصل جھگڑالوئوں چھوڑ کر ان سے صلح کی خواہش کر رہے ہیں جو مشکل حالات سے نمٹنے میں سیاست دانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر شیخ صاحب اپنی خواہش کا رخ حکمرانوں اور اپوزیشن کی طرف موڑ لیں تو یہ ملک و قوم پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔ 
٭…٭…٭
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ مفت آٹا فراہمی ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج ہے‘ اسکی کامیابی پر ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 
کیا بات ہے! اگر وزیراعلیٰ پنجاب کی نظر میں یہ کامیابی ہے تو ناکامی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بتائیں مفت آٹے کے حصول پر عوام کی جو درگت بنی اور تذلیل علیحدہ ہوئی۔ اور سب سے بڑھ کر جو اموات ہوئیں‘ وزیراعلیٰ اگر اسے کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں تو پھر ایسی انتظامیہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بے شک مفت آٹے کی فراہمی ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج ہے مگر مس مینجمنٹ کے باعث ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ ہمارے حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ قوم سے حقائق چھپا کر انتظامیہ کی غفلت کو بھی کامیابی کے کھاتے میں ڈال کر قوم کے سامنے سب اچھا ہے کی تصور پیش کرنے کے عادی ہیں۔ حکومت کا مفت آٹے کا پیکیج سو فیصد کامیاب ہو سکتا تھا اگر اس کیلئے چند پوائنٹس مقرر کرنے کے بجائے آٹے کی سپلائی عام دکانوں پر کر دی جاتی۔ اس سے عوام لائنوں کی اذیت سے بھی بچ جاتے اور انہیں آٹا بھی آسانی سے دستیاب ہو جاتا۔ بہرحال اب ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کی مبارکباد قبول کرتی ہے یا شرمندگی کا سامنا کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہونیوالا۔ کیونکہ ٹیم کی جانب سے سب اچھا ہے کی رپورٹ پر ہی تو وزیراعلیٰ نے اس پیکیج کو کامیاب قراردیا اور ٹیم کو مبارکباد دے ڈالی۔ 

ای پیپر-دی نیشن