سیاسی قیادت ملکی مفاد کے لیے کشمکش سے گریز کرے
سیاسی عدم استحکام ملک کی جڑوں کو بری طرح کھوکھلا کررہا ہے لیکن سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔ بیانات، تقریروں اور انٹرویوز سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی بس پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ بھی شریک ہوچکی ہے جس سے صورتحال مزید بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر ڈٹ گئی ہیں کہ وہ جمہوری قوتوں کی بالادستی پر حرف نہیں آنے دیں گی۔ قومی اسمبلی میں سوموار کو سپریم کورٹ کے حکم پر سٹیٹ بینک کو پنجاب کے انتخابات کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے کی قائمہ کمیٹی کی سفارش کا منظور کرلیا جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی خزانہ کی رپورٹ پیش کی گئی۔ اس موقع پر قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔
ایوان سے خطاب میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس سے شروع ہونے والے مقدمے میں دو جج الگ ہو گئے، چار ججز نے پٹیشن مسترد کر دی، کسی ایک شخص کو خوش کرنے کے لیے الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس ایوان نے پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن کرانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک کو کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم نکالنے کا حکم دیا تھا، آج قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے معاملے پر غور کیا، وفاقی کابینہ اور قائمہ کمیٹی نے معاملہ ایوان کو بھیجا۔ ادھر، صحافیوں سے مختصر بات کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (ایف سی ایف) سے فنڈز مختص کرنے کا اختیار نہ تو سٹیٹ بینک اور نہ ہی خزانہ ڈویژن کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے منظوری لیے بغیر کسی بل یا بجٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہمارے لیے پارلیمنٹ بالادست ہے کیونکہ آئین میں یہی لکھا گیا ہے۔ سٹیٹ بینک صرف پیسے مختص کرسکتا ہے لیکن اس وقت تک جاری نہیں کرسکتا جب تک خزانہ ڈویژن سے اس کو باقاعدہ ہدایات نہیں دی جاتیں۔ اگر پارلیمنٹ ہاں کہتی ہے تو ہم آج ہی فنڈز جاری کر دیں گے۔
ریاست کے ستونوں کے درمیان صورتحال کس حد تک بگاڑ کا شکار ہے اس کا اندازہ وفاقی وزیر تجارت نوید قمر کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ اداروں کو ڈرایا جاتا ہے کہ توہین عدالت لگ جائے گی، پارلیمنٹ بھی توہین کی کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی توہین پر ہم بھی جیل بھیج سکتے ہیں۔ نوید قمر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ بجٹ مختص کرنے کا اختیار ہمیں دیا جائے لیکن قومی اسمبلی کا یہ اختیار کسی ادارے کو نہیں دے سکتے۔ قومی اسمبلی اپنے اختیارات کا تحفظ نہیں کرے گی تو کیا فوج آکر کرے گی۔
معاملات کو سدھارنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر آپس میں مشاورت کرے لیکن ہر دھڑا اپنی اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر بات چیت کا وقت گزر گیا ہے، اب حکومت کو قومی اسمبلی الیکشن پر بات کرنی ہے تو کرلے۔اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف مذاکرات کے معاملے پر یکسو ہے، حکومت کی جانب سے مذاکرات پر کوئی سنجیدگی نہیں، مذاکرات صرف آئین اور سپریم کورٹ کی مقرر کردہ حدود میں ہو سکتے ہیں۔پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات نہیں ہوتے تویہ آئین کو سبوتاژکرنے کے مترادف ہیں، مذاکرات آئین سے باہر نہیں ہوسکتے۔لاہور ہائی کورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ پنجاب میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہر صورت 14 مئی کو انتخاب کرانا ہوں گے ورنہ سڑکوں پر دما دم مست قلندر ہوگا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ ہم مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ آئین کے مطابق مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے، 90 دن سے باہر الیکشن نہیں ہوسکتے۔ اس کے باہر آئین ختم ہوجاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران بیان میں عمران خان نے کہا کہ 90 دن کے بعد نگران حکومت کی کوئی آئینی حیثیت نہیں رہے گی۔ 90 دنوں کے بعد جو کچھ کریں گے وہ غیر آئینی ہوگا۔ انھیں ہٹا کر ایک ایڈمنسٹریٹر لگانا چاہیے جس کا کام صرف الیکشن کروانا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نگران حکومت کسی اور ایجنڈے پر آئی ہوئی ہے۔ نگران حکومت سب کچھ کر رہی ہے ماسوائے الیکشن کروانے کے۔اگر سٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ کے کہنے پر رقم نہ دی تو اس کا مطلب ہے کہ آئین ختم ہوچکا ہے۔ اس کا مطلب یہاں قانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت حکمران اتحاد سے بات چیت کے لیے جیسی شرائط رکھ رہی ہے ان کے ہوتے ہوئے معاملات آگے بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے۔ مذاکرات کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں کچھ نرمی دکھا کر کچھ بات اپنی منواتے ہیں اور کچھ دوسرے کی مانتے ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے مسائل مزید بڑھتے جائیں گے۔ ملک اس وقت جس مشکل صورتحال میں پھنسا ہوا ہے یہ عوام یا اداروں سے زیادہ سیاسی قیادت کا امتحان ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو کل جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف عوام کے ردعمل کی ساری ذمہ داری سیاسی قیادت ہی کی ہوگی۔