دہشت گردی کی نئی لہر
یہ تجزیہ دو ذہنو ں کی تخلیق ہے ،بنیادی طور پر اس کے عسکری پہلو ئوں کے بارے میں میرے سوالات کا جواب لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی نے دیا ہے ۔جنرل صاحب کے تعارف کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل دفاعی کمان کے بانی ہیں ۔عسکری معاملات میں‘ میں ان کی رائے کو صائب خیال کرتا ہوں اور اکثر و بیشتر سکیورٹی امور پر راہنمائی کے لیے انہی سے رجوع کرتا ہوں ۔چنانچہ میں نے قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے پر ان رائے جاننے کے لیے فون کیا اور ایک سانس میں ان کے سامنے سوالات کا ڈھیر رکھ دیا ۔میں نے ان سے پوچھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے میں دہشت گردی کے صرف ایک نکتے پر غور کیا گیا ہے جبکہ ملک اس وقت سیاسی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور1970 ء اور1971ء والے خدشات بھوت بن کر آنکھوں کے سامنے ناچ رہے ہیں ۔دوسری طرف معاشی بحران نے کیا غریب اور کیا امیر،ہر شخص کی چیخیں نکلوا دی ہیں ۔ صنعتی پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے ،درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں،اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے ہر شخص کا سانس پھولا ہوا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے ان قیامتوں پر نظر ہی نہیں ڈالی اور اسے پاکستان میں صرف دہشت گردی کا ہی مسئلہ نظر آیا ہے ۔میں نے جنرل صاحب سے یہ بھی پوچھا کہ اس اعلامیے کی روح سے دہشت گردی کی نئی لہر نے پچھلے چار برسوں میں سر اٹھایا ہے ۔جب عمران حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کا بیڑا اٹھایا اور ان کے لیے پاکستان کی سرحدیں کھول دیں ۔آج ٹی ٹی پی کا زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور وہ جہاں چاہتے ہیں اور جس کے خلاف چاہتے ہیں، خود کش دھماکہ کر دیتے ہیں ۔کیا80 ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے یہ نرم سلوک آپ کے نزدیک مناسب تھا۔میں نے جنرل صاحب سے یہ بھی استفسار کیا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ہم بغلیں بجا رہے تھے کہ ٹی ٹی پی کے پشت پناہ بھارت کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا ہے اور اس کا اثر و نفوذ افغانستان سے ختم ہو گیا ہے ۔اگر امریکہ بھی افغانستان سے نکل گیا اور بھارتی را کے ایجنٹ بھی فرار ہو گئے تو پھر آج ٹی ٹی پی کی سرپرستی کون کر رہا ہے ۔میرا یہ سوال بھی تھا کہ کیا آپ واقعی دہشت گردی کوملک کا مسئلہ نمبر ایک سمجھتے ہیں اور اس کے قلع قمع کے لیے نئے فوجی آپریشن کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔میں نے جنرل صاحب کے سامنے لوگوں کے شکوک و شبہات کی روشنی میں یہ بھی سوال کیا کہ کیا دہشت گردی کو الیکشن کے التوا کا بہانہ تو نہیں بنایا جا رہا۔میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ اگر فوری الیکشن ہو جائیں تو کیا وہ دہشت گردی کے خاتمے کی ضمانت بن سکیں گے ۔میں نے جنرل صاحب کے سامنے زرداری اور نواز شریف ادوار کی مثال رکھی ،یہ دونوں حکومتیں عام انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھیں لیکن دونوں ادوار میں دہشت گردی کے عفریت نے ہماری شہ رگ سے خون بھی چوسا اور ہماری معیشت کو بھی ڈیڑھ سو ارب کا نقصان پہنچایا۔میں نے جنرل صاحب سے یہ بھی پو چھا کہ جس طرح آرمی پبلک سکول میں کربلا کے منظر کے بعد پوری قوم ضربِ عضب کے حق میں متحد ہو گئی تھی اور قومی اتفاق ِ رائے سے ایک نیشنل ایکشن پلان بھی منظور کر لیا گیا تھا،اگر اس بار بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو کیا پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی نظر آئے گی ؟
جنرل غلام مصطفی نے بڑے صبر اور حوصلے سے میرے سوالات کی بوچھاڑ کو برداشت کیا اور پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ ایک تو آپ کے ہر سوال کے اندر اس کا جواب بھی موجود ہے دوسرے ان کا کہنا تھا کہ وہ مسئلے کے سیاسی پہلوئوں پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے ‘صرف اور صرف دفاعی پہلوئوں کاجواب دینے کی کوشش کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلا شبہ اس وقت ملک کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے تاہم قومی سلامتی کونسل کے فوجی نمائندوں نے سول قیادت کو ضرور قائل کر لیا ہوگا کہ ہمیں سب سے پہلے دہشت گردوں کے خلاف دو دو ہاتھ کرنے ہیں ۔وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیاسی اور معاشی بحران پر بات نہیں ہو سکی ہوگی ، ضرور ہوئی ہوگی لیکن اس کا تذکرہ انہوں نے اعلامیے میں کرناضروری نہ سمجھا ہو گا۔اب اس کا مطلب جس نے جو نکالنا ہے وہ نکالتا رہے ۔فی الوقت دہشت گردی پر قابو پانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔اس ضمن میں قومی سلامتی کونسل کا فیصلہ میرے نزدیک لائق ستائش ہے ۔باقی معاملات سے بہر حال سول قیادت کو نمٹنا ہے ۔جنرل صاحب نے کہا کہ وہ ابتدا ہی سے اس فیصلے کے خلاف تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں اور پھر وہ مذاکرات کے طریق کار سے بھی متفق نہیں تھے کہ سب سے اونچی جگہ سے بات چیت کا آغاز کیا گیا ۔
جب آپ اعلیٰ ترین سطح کے سامنے اپنے پتے رکھ دیتے ہیں تو پھر آپ کے پاس متبادل چال چلنے کا راستہ باقی نہیں رہتا ۔بہر حال سابقہ حکومت نے ٹی ٹی پی کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی‘ اس کے نتائج اب سارا ملک بھگت رہا ہے ،مگر آپ یقین رکھیں کہ آپ کی افواج ماضی کی طرح موجودہ چیلنج سے بھی عہدہ بر آ ہو کر دکھائیں گی ۔امریکہ اور اس کے حلیف عالمی دہشت گردوں کے خلاف کسی محاذ پر بھی نہیں جیت سکے جبکہ پاکستان کی مسلح افواج نے اہل وطن کی بھر پور حمایت کے ساتھ ضرب عضب آپریشن کو منطقی کامیابی کی منزل سے ہمکنار کیا ۔ہماری مسلح افواج کی اس کامیابی کو پوری دنیا میں ایک مثال سمجھا جاتا ہے ۔ جنرل صاحب نے میرے سوالات کے پس منظر میں کہا کہ آج بھی مسلح افواج کو قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ قوم کا کوئی طبقہ ان کے ساتھ کھڑا نظر نہ آئے ۔
اس امر میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ دہشت گردی پر اگر قابو پانا ہے اور اس کو ملیا میٹ کرنا ہے اور اس کا سر کچلنا ہے تو یہ صرف فوجی آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔الیکشنوں کا نفع نقصان اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔جیسا کہ ماضی کی آپ نے مثالیں دی ہیں ۔ جنرل صاحب نے کہا کہ جیسے ہی امریکہ نے افغانستان کو خالی کرنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے انہی نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ امریکی افواج اس خطے سے جا رہی ہے لیکن امریکہ باقی ہر شکل میں یہاں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا ۔جنرل صاحب نے کہا کہ آپ نے بھارتی’’ را‘‘ کا ذکر کیا ہے لیکن کئی دوسری عالمی خفیہ ایجنسیاں بھی افغانستان کے اندر موجود رہی ہیں اور وہ ٹی ٹی پی کی پیٹھ بھی ٹھونکتی رہی ہیں ۔خود افغان فوج بھی اور ان کی خفیہ ایجنسی بھی کہیں خلا میں گم نہیں ہو گئی ۔وہ بھی زمین پر موجود ہیں اور پاکستان کے خلاف بغض نکال رہی ہیں ۔ بھارت کی را ،اسرائیل کی موساداور نیٹو ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ بھی افغانستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
پاکستان کی مسلح افواج نے ان کے مذموم ارادوں کو بھی شکست دی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ،آج بھی وہی عالمی خفیہ ایجنسیاں ٹی ٹی پی کی پشت پناہ ہیں اور ہمیں پھر ان کے خلاف بھرپور جنگ لڑنی ہے اور مجھے یقین کامل ہے کہ پہلے کی طرح پاکستان کی مسلح افواج اللہ کے فضل وکرم اور عوام کے بھرپور تعاون کے ساتھ اس ناسور کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوں گی ۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کو بھی دہشت گردی کے امور پران کیمرہ بریفنگ دی گئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی قیادت کیلئے دہشت گردی ملک کا مسئلہ نمبرایک ہے اور یہ فوری حل چاہتی ہے ۔
٭٭٭