ایران سعودی عرب تعلقات کا نیا دور
چین کی ثالثی کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا نیا دور شروع ہوچکا ہے۔ دونوں مسلم ملکوں کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا کتنی اہم پیشرفت ہے اس کا اندازہ شاید ہمارے ذرائع ابلاغ کو نہیں ہے اسی لیے اس نہایت غیر معمولی واقعے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ بین الاقوامی تعلقات یا اہم عالمی تنازعات کے حل کے ضمن میں یہ چین کے لیے جتنی بڑی کامیابی ہے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ بات اتنی ہی پریشانی یا اضطراب کا باعث ہے کیونکہ اس کے ذریعے چین کے عالمی سپر پاور بننے کے امکانات روشن تر ہوگئے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس واقعے سے ایسی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے جو اس خطے کی سیاسی و معاشی و تزویراتی ہی نہیں بلکہ سماجی صورتحال پر بھی دیرپا اثرات کی حامل ہوں گی۔ علاوہ ازیں، اس سے مسلم کمیونٹی کو مجموعی طور پر بھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ ایران اور سعودی عرب صرف دو ملک ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں، شیعہ اور سنی، کے سرکردہ نمائندوں کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات ویسے تو لمبے عرصے سے کشیدہ ہی چلے آتے تھے لیکن 2016ء میں معاملات اس وقت زیادہ بگاڑ کا شکار ہوئے جب 2 جنوری کو سعودی حکومت نے معروف شیعہ عالم نمر باقر النمر کو دیگر 46 افراد کے ساتھ سزائے موت دی۔ موت کی سزا پانے والوں میں سنی عقیدے کے وہ افراد بھی شامل تھے جو 2003ء سے 2006 ء کے درمیان القاعدہ کی طرف سے کیے جانے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ شیخ نمر النمر کے ساتھ ایک اور شیعہ عالم فارس الشویل کو بھی سزائے موت دی گئی تھی۔ ان دونوں پر الزام یہ تھا کہ یہ اپنے پیروکاروں کو دہشت گردی اور حکومت مخالف سرگرمیوں پر اکسانے میں ملوث تھے۔ سعودی حکومت کے اس اقدام کے ردعمل میں ایرانی دارالحکومت تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملے ہوئے۔ حملہ آوروں نے عمارتوں کو آگ لگادی۔ اس واقعے کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات تقریباً ختم ہوگئے، اور سعودی عرب سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے دیگر عرب ممالک کی طرف سے بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید بگاڑنے کا سبب یمن اور شام میں جاری تنازعات بنے۔ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ جب سعودی عرب نے اپنے ہمسایے واقع یمن کو حوثی باغیوں کے غلبے سے بچانے کے لیے فضائی حملہ کیا تو جواب میں حوثیوں نے بھی سعودی ہوائی اڈوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے معاملات مزید بگڑتے گئے۔ اس صورتحال میں تعلقات کو معمول پر لانے کی ذمہ داری چین نے لی جو سعودی عرب اور ایران دونوں کے تیل کا بڑا خریدار ہے۔ رواں سال فروری میں جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چین کے دورے پر گئے تو وہاں چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران ایران کے سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سلسلے میں 10 مارچ کو بیجنگ میں ایرانی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر موسیٰ بن محمد العیبان کی ملاقات میں تعلقات کی بحالی کا باضابطہ اعلان کردیا گیا۔ امریکا میں اس واقعے کو کیسے دیکھا گیا اس کا اندازہ 11 مارچ کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کے اس اقتباس سے لگائیے:
Finally, there is a peace deal of sorts in the Middle East. Not between Israel and the Arabs, but between Saudi Arabia and Iran, which have been at each other's throats for decades. And brokered not by the United States but by China.
This is among the topsiest and turviest of developments anyone could have imagined, a shift that left heads spinning in capitals around the globe. Alliances and rivalries that have governed diplomacy for generations have, for the moment at least, been upended.
تعلقات کا یہ نیا دور جس کا ایران اور سعودی عرب نے آغاز کیا ہے کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات بھی اس دور کی اہمیت کو دو چند کرتی ہے کہ اس کے لیے ثالث کا کردار اس چین نے ادا کیا ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک کو تجارت کے ایک نئے نظام سے جوڑ کر عالمی منظرنامے کو بدلنے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت کی وجہ سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، گزشتہ برسوں میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا پلیٹ فارم بھی ایرانی سعودی کشیدگی کی وجہ سے اتنا مؤثر نہیں رہا جتنا کہ یہ ان دونوں کے تعلقات معمول پر ہونے سے ہوسکتا تھا۔ اب جبکہ ایران اور سعودی عرب کے مابین فاصلے ختم ہورہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس صورتحال کے ثمرات سے پاکستان بھی مستفید ہوگا اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری بالعموم تمام مسائل اور بالخصوص مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جلد یا بدیر کوئی ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے جو امریکا کے عالمی اثر و رسوخ کو محدود تر کردے گی۔
٭…٭…٭