جمعرات‘ 29 رمضان المبارک 1444ھ‘ 20 اپریل 2023ء
سیاس جماعتیں دیواریں کھڑی نہیں کرتیں روڈ بناتی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی
بات تو سو فیصد درست کی ہے گیلانی صاحب نے۔ سیاست میں ذاتی انا اور مخالفت برائے مخالفت کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ جہاں یہ آ جائیں تو پھر سیاست کم اور فساد زیادہ ہوتا ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں اس وقت جو فتنہ اور فساد ہو رہا ہے اس کی وجہ یہی انا اور مخالفت برائے مخالفت ہے۔ پہلے عمران خان نے میں نہ مانوں والی پالیسی اپنا کر بہت سے وقت ضائع کر دیا۔ اب بالآخر کسی حد تک مذاکرات پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ مگر اب جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن نے سخت موقف اپنایا ہے۔ وہ کسی صورت عمران خان کی پی ٹی آئی سے مذاکرات پر تیار نہیں۔ ان کا غصہ بجا ہے۔ مگر کیا کریں خان جی کو زبان اور بیان پر کنٹرول نہیں۔ انہوں نے بدزبانی کا جو تڑکا ہماری سیاسی زبان درازی میں لگایا ہے۔ اسکے زخم بھرنے میں کافی وقت لگے گا۔ یہ تو وہی ’’زخم کے بھرنے تک ناخن نہ بڑھ آئینگے کیا۔‘‘ والی بات ہے مگر کیا کریں اس وقت کے حالات کا تقاضہ ہے کہ معافی تلافی سے کام لیا جائے۔ مولانا بڑے انسان اور سیاستدان ہیں‘ وہ بھی دل بڑا کریں‘ خود بے شک مذاکرات میں نہ بیٹھیں مگر پی ڈی ایم کی کوششوں کی حمایت کرتے رہیں تاکہ الیکشن کی راہ ہموار ہو‘ نہ کہ کسی تیسری قوت کی راہ ہموار ہونے لگے۔ اس وقت بہت سے دلوں میں یہ خواہش چٹکیاں لے رہی ہے تاکہ انکے گلشن میں بھی بہار آئے اور وہ بھی چند روز مزے اڑا لیں۔ کئی سیاستدان اور چھوٹی موٹی جماعتیں آمریت کے زیر سایہ ہی پلتی ہیں۔ عوام ان سے بخوبی واقف ہیں۔ نقصان بڑی بڑی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ مولانا مفتی محمود، شاہ احمد نورانی جیسے جید عالم اور سیاستدان بھی بالاخر بھٹو سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے تھے۔ عمران کو بھی اینگری اولڈمین سمجھ کر معاف کیا جائے حالانکہ وہ ابھی تک خود کو ینگ مین ہی سمجھ رہے ہیں۔ خدا جانے وہ کب بڑے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
عید پر ٹرانسپورٹروں نے کرائے ازخود بڑھا دئیے
بحیثیت قوم ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ہم ہر وقت لوٹنے نوچنے کھسوٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سچ ہے اگر پتہ چلے کہ کل قیامت ہے تو ہم سفید کپڑوں یعنی کفن کی قیمت بھی دوگنی کر دیں گے۔ پورے ملک میں رمضان کا مبارک مہینہ دیکھ لیں‘ نصیحت واعظ اور خوف خداوندی کے تمام تر پرچار کے باوجود کسی ایک طبقے میں بھی خوف خدا پیدا نہیں کر سکا۔ وہی لوٹ مار بے ایمانی دجل فریب کا کاروبار جاری رہا۔ مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے جوتے پہنتے ہی ہم یہی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ دوسروں کو لوٹ سکیں۔ اسی لالچ اور حرص کی وجہ سے ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ اب ذرا ان پردیسیوں کی حالت زار پر ہی نظر ڈالیں جو گھر سے دور دوسرے شہروں میں ملازمت کرنے آتے ہیں تاکہ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کا پیٹ پاسکیں۔ سال بعد عیدالفطر پر یہ بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر کچھ جمع پونجی لے کر اور تھوڑا بہت سامان لے کر جب بس اڈوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں ٹرانسپورٹ مافیا انسانوں کی شکل میں شیطان یا بھیڑیا بن کر ان کو بھنبھوڑنے کے لیے تیار ملتا ہے۔ سارے سال کی کمائی انہی مجبور مسافروں سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف ہماری دشمن بھارت میں صرف ریل کے محکمہ نے ہی جو دنیا کی سب سے بڑی ریل سروس ہے‘ گزشتہ سال کئی سو ارب روپے منافع کمایا۔ وہاں دور نزدیک چھوٹے بڑے شہر و دیہات کو ریل سروس سے جوڑا گیا ہے‘ جو کم قیمت پر مسافروں کو لانے لے جانے میں ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ہمارے ہاں محکمہ ریلوے کو لوٹ مار کا محکمہ بنا کر بے کار کی فوج ظفر موج بھرتی کر کے تباہ کر دیا گیا ہے اور عوام کو لالچی ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو دونوں ہاتھوں سے مسافروں کو لوٹ رہا ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم حکومت اپنے مقرر شدہ کرایوں پر ہی عمل کروا کے عوام کی داد رسی کرے۔ گرچہ یہ خواب ہے مگر دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔
٭٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں اب تک 3 ڈاکو ہلاک 18 گرفتار
کارروائی تو یوں کی جا رہی ہے گویا چتوڑ گڑھ کا قلعہ فتح کیا جا رہا ہو۔ مگر اس تمام طمطراق کے باوجود نتیجہ فی الحال صرف زیرو نظر آ رہا ہے۔ آپریشن سے قبل کی ویڈیوز دیکھ لیں کھلے چہرے سے جدید اسلحہ کاندھے پر لٹکائے یہ ڈاکو رابن ہڈ یا سلطانہ ڈاکو کی طرح ہنستے قہقہے لگاتے ہوئے قانون نافذ کرنے والوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے تھے۔ کیا ان چہروں کو نادرا کی مدد سے ٹریس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کے پاس مارٹرگن اور اینٹی کرافٹ گن کے علاوہ جدید خطرناک اسلحہ ہے وہ ان تک کس طرح پہنچا ۔کس نے پہنچایا‘ کیا اس کا جواب ہے کسی کے پاس۔ ان کے سرپرستوں پر تو ابھی تک کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہیں گرم ہوا بھی چھو کر نہیں گزری جبکہ کچے کے علاقے میں چند کچے مکان گرا کر گھاس پھونس کے جھونپڑوں کو آگ لگا کر ہم کونسی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ اتنی بڑی کارروائی اور صرف 3 ڈاکو ہلاک 18 گرفتار ۔ کہا جا رہا ہے کہ باقی ڈاکو دلدلی علاقے سے گزر کر دریائے سندھ کے پوئوں (جزیروں) میں چھپ گئے ہیں۔ یہ تو اطمینان سے کشتیوں میں بیٹھ کر دریا پار کر کے روپوش ہو جائیں گے۔ تو پولیس اور ر ینجرز کیا کریں گی۔ گھیرا تنگ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ان ڈاکوئوں کو ان جزیروں میں دریا میں نیست و نابود کرنا ہو گا ورنہ یہ ناسور پھر پھیل جائے گا۔ چاہے انہیں بکتر بند گاڑیوں تلے ہاتھی کے پائوں کی طرح کچلے جائے یا دریا میں غرق کیا جائے‘ یہی طریقہ ہے ان سے نجات کا ‘جو صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہاں صرف چند نہیں درجنوں ڈاکو گروہوں کے ٹھکانے ہیں۔ بہتر ہے کہ یہاں بھی ایک چھائونی قائم کی جائے رینجرز یا آرمی کی تربیتی تاکہ دور دور تک امن و امان قائم ہو۔
٭٭٭٭٭
سپین میں چودھری خاندان کے اثاثوں کی تفصیل نیب کو موصول
چودھری پرویز الٰہی نے تو فوری طور پر بے نامی اثاثوں کے حوالے سے ایسے کسی بھی خط کے موصول ہونے سے انکار کر دیا ہے جبکہ نکے چودھری مونس الٰہی نے کھلے عام ان اثاثوں کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ہمارے تمام اثاثے ڈکلیئر ہیں۔ ہمارا سپین میں ان 3 کار پارکنگ پلازوں اور سٹوریج ہال سے کوئی تعلق نہیں۔ اب دیکھنا ہے نیب والے سپین سے آنے والے اس محبت نامہ کے حوالے سے کیا بیان جاری کرتے ہیں۔ عجب صورتحال ہے، ہمارے ملک میں جس سیاست دان پر ہاتھ ڈالو اس کے بیرون ملک اثاثے یا ملک میں ناجائز پوشیدہ ثاثے یوں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ اینٹ بھی اٹھائو تو نیچے سے بھٹو نکلے گا۔ آج کل تو ہر طرف ناجائز اور چھپے ہوئے اثاثوں کا دور ہے۔ سب حیران و پریشان اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں کہ کس طرح دولت کے ان انباروں کی حفاظت ممکن ہو اور اسے حاسدین کی نظروں سے بچایا جائے۔ اب کس کو ایماندار کہا جائے یہاں تو اچھے لوگوں کا ہر سطح پر زندگی کے ہر میدان میں قحط پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
بیٹا باپ کی اوٹ میں بیوی شوہر کے۔ باپ بیٹے اور شوہر بیوی کی اوٹ میں چھپتا پھر رہا ہے۔ سچ کوئی نہیں کہتا کہ ہاں یہ میرے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے چھپائے یا خاندانی بتائے جاتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے وقت کتنے خاندانی نواب یا رئیس تھے۔ اب تو ہر طرف خاندانی نوبازیافت یا نودریافت شدہ دولت مندوں کا راج ہے۔ جب یہ حال آ جائے تو پھر ہمیں قیامت کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ کہتے ہیں قیامت سے قبل نو دولتیوں کا عروج ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے یہ سب دولت مند اپنی دولت کا آدھا حصہ ملک و قوم پر نچھاور کرتے ہوئے انہیں مشکلات سے نجات دلائیں۔ باقی آدھا حصہ پھر بھی ان کی سات پشتوں کے لیے کافی ہو گا۔
٭٭٭٭٭