• news

حکومت اور اپوزیشن کو خدا کا واسطہ ہے!

عمران خان کے کہنے پر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلٰی نے قبل ازوقت صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں جس پر گورنر پنجاب نے اسمبلی ختم ہونے کے متعلق کوئی نوٹی فکیشن نہیں کیاجبکہ گورنر خیبرپختونخواہ نے وزیراعلیٰ کے ایڈوائس پر اسمبلی ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔ پنجاب میں نگراں حکومت کے قیام پر سابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے آئین میں دیئے گئے اختیارات کے تحت نگراں وزیراعلٰی کا تقرر کیا۔ آئین میں تو اسمبلی ختم ہونے کے 90دن میں نئے انتخابات کا طریقہ کار درج ہے۔ صوبائی نگراں حکومتوں‘ گورنر صاحبان اور الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کا شیڈول نہیں دیا تو تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس طرح کے قومی اہمیت کے مسائل پر سب سے بہتر تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ فل کورٹ تشکیل دیکر 72گھنٹوں میں فیصلہ دے جسے تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے تسلیم کریں گی۔سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ الیکشن تاریخ متعلق پہلے پہل 9رکنی بنچ تشکیل دیا جس میں سے 4جج صاحبان نے بنچ میں شمولیت سے معذرت کرلی اور پھر 5رکنی بنچ نے 2-3سے فیصلہ دیا کہ 90دنوں کی آئینی مدت میں الیکشن منعقد کرانے کیلئے تاریخ دی جائے۔ اس فیصلے پر اسی لئے حکومتی اتحاد کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ اگر فل کورٹ بنادیا جاتا تو ہم فیصلہ قبول کرلیتے۔ ایسا فیصلہ جس میں 4جج پہلے ہی اختلاف کرکے الگ ہوگئے اور پھر 2ججوں نے بھی اختلافی نوٹ لکھا تو 3جج صاحبان کے فیصلے کو اقلیت کا فیصلہ قرار دیا گیا۔ 
سپریم کورٹ کے حکم پر 30اپریل کے لئے الیکشن کی تاریخ دی گئی لیکن کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے دوران ہی الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ‘ وزارت خزانہ و صوبائی پولیس و انتظامیہ کی جانب سے الیکشن کے انعقاد کے لئے سازگار وقت نہ ہونے کی رپورٹس کے باعث الیکشن کا انعقاد 8اکتوبر 2023ئ￿ تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا جس پر ایک بار پھر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ قومی اہمیت کے انتہائی اہم معاملات پر سپریم کورٹ کو چاہئے کہ فل کورٹ تشکیل دے تاکہ اکثریت کے فیصلے کو تمام فریقین کھلے دل سے تسلیم کریں۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے 5رکنی بنچ تشکیل دیا جس میں سے 2نشستوں میں 2جج صاحبان نے بنچ میں شمولیت سے معذرت کرلی۔بلکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے الیکشن کی تاریخ دینے کے گزشتہ فیصلے پر خود ہی انگلی اٹھادی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے ہی حاضر سروس ججوں نے متنازع بنادیا۔ 2بار بنچ ٹوٹ چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت چیف جسٹس سے فل کورٹ کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس صاحب نے یہ کہہ کر فل کورٹ سے معذرت کرلی کہ میں نے خود بھی اس متعلق سوچا لیکن لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ بنچ میں ججوں کی مصروفیات کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سنے جانے والے مقدمات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو روزمرہ کے مقدمات متاثر ہوتے۔
اس وقت یہ صورتحال ہے کہ سپریم کورٹ کا 3رکنی بنچ اس کی سماعت کریگا جبکہ حکومت کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ دوہرایا جارہا ہے۔ اسی طرح عمران خان نے بھی فل کورٹ کی تشکیل پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تادم تحریر یہ صورتحال ہے کہ حکومتی اتحاد کی جانب سے فیصلے سے قبل ہی 3رکنی بنچ کو متنازع قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر یہی بنچ فیصلہ دیتا ہے اور حکومت اسے تسلیم نہیں کرتی تو پھر عام عوام سڑکوں پر باہم دست و گریباں ہوسکتے ہیں اور ملک انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر اس معاملے کو دانشمندی سے حل نہ کیا گیا تو ملک بہت بڑے انتشار کا شکار ہوتا لگ رہا ہے۔اگر معاملہ کا درست ادراک نہ کیا گیا تو انتشار پر کوئی بھی قابو نہیں پاسکے گا۔
میں تو چیف جسٹس صاحب سے اپیل کروں گا کہ ادارے کی ساکھ اور وقار میں مزید اضافے کے لئے آپ روزمرہ کے مقدمات میں معمولی تاخیر کی پرواہ نہ کریں اور اس معاملے سمیت قومی اہمیت کے معاملات پر فل کورٹ تشکیل دیں تاکہ فیصلے پر کوئی فریق اعتراض نہ کرسکے۔ دوسری طرف سیاستدانوں کی بدترین ناکامی‘ ضد اور انا کا ملبہ آپ اپنے ادارے پر لینے کیلئے ایسا طریقہ کار اپنائیں کہ جس سے عدلیہ کے وقار میں مزید اضافہ ہوسکے۔ اس فیصلے کیلئے فل کورٹ کو مسلسل 72گھنٹے میں سماعت کرکے فیصلہ صادر کردیا جائے اس طرح سے ادارے کیخلاف کوئی پروپیگنڈہ نہیں کرسکے گا۔ اس ملک میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس فریق کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ عدلیہ کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کردیتا ہے۔سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملہ سیاستدانوں کی باہمی ضد اور انا کا نتیجہ ہے اور ایک آئینی معاملے پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی ذہنی تنا ؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں کو ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے اپنے باہمی معاملے خود حل کرنے چاہئیں۔ اگر گزشتہ ایک سال کی موجودہ حکومت کی کارکردگی نے حکومتی جماعتوں کو عوام میں غیر مقبول کردیا ہے تو اگست تک چند ماہ میں حکومت کون سے ایسے کام کرلے گی کہ جس سے وہ عوام کی ایک دم سے حمایت حاصل کرلے؟ اگر ملک بھر میں ایک ہی تاریخ 8اکتوبر کو انتخابات پر سیاستدان ملک بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کرلیں اور اگست میں نگراں حکومتوں کے متعلق بھی ابھی سے اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے تو ملک بہت بڑے بحران سے بخوبی بچ جائے گا اور پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت سے باہر آجائے گی۔ 
سیاستدانوں کی وجہ سے ہی ملک کی معاشی صورتحال خراب ہوئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی تھی لیکن انہوں نے پاکستان میں مصنوعی طریقے سے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جس کا ملکی معیشت کو دور رس نقصان پہنچا اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔ موجودہ حکومت کو معاشی تباہی ورثہ میں ملی ہے اور ملک اس وقت جس قدر مہنگائی اور معاشی بدحالی کا شکار ہوچکا ہے اس سے نکلنے کے لئے کسی بھی حکمران کو کم از کم تین سال درکار ہوں گے۔ ایسے میں مل بیٹھ کر ملک اور عوام پر حم کریں۔

ای پیپر-دی نیشن