• news

انتخابات کی تاریخ کا بنیادی فلسفہ (1)

جدید جمہوری نظام کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ حکومت تشکیل دینے کا اختیار عوام کے پاس ہے۔ عوام اس اختیار کو انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عوام کب اور کس وقت یہ اختیار استعمال کریں؟ گویا عوام کے اس اختیار پر بھی یہ قدغن ہے کہ اپنے مقررہ وقت پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اور اس سے متعلقہ افراد اور اداروں کے لیے مدت عہدہ کا تعین کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ مدت لامحدود ہو تو پھر جمہوریت اور آمریت میں فرق روا رکھنا ممکن نہیں۔ اسی لیے جمہوری ممالک میں انتظامی سربراہ اور دیگر حکومتی افراد اور اداروں کے لیے مدت عہدہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ مدت عہدہ مقرر کرنے کے لیے بہت سے تاریخی، جغرافیائی، سیاسی، سماجی، معاشی، نفسیاتی، اور آئینی و قانونی عوامل کا خیال رکھا جاتا ہے۔
مثلاً یہی دیکھ لیں کہ افسرشاہی کے معمولی اور اعلیٰ عہدہ کے لیے یہ اصول طے ہوا کہ اسے کسی ایک جگہ تین سال سے زیادہ مدت کے لیے مقرر نہ کیا جائے اور تبادلہ کرکے کسی دوسری جگہ ذمہ داری دے دی جائے۔ اس اصول کی ابتدا کئی ہزار سال پہلے قدیم چین سے ہوئی جب چین کا شہنشاہ اپنے عمال کو تین سال کی مدت کے بعد تبدیل کردیا کرتا تھا کیونکہ تین سال سے زیادہ مدت میں یہ امکان بڑھ جاتا تھا کہ عمال وہاں کے مقامی افراد کے ساتھ ایسے ذاتی تعلقات قائم کرسکتے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنے فرائض ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے تھے۔
اسی طرح امریکی آئین بنانے والوں نے بھی انتخابات کے وقت کا تعین کرتے ہوئے تاریخی، معاشرتی، جغرافیائی، نفسیاتی اور سیاسی امور کو اہمیت دی۔ امریکا میں عام انتخابات اور وسط مدتی انتخابات کے لیے آئین میں درج ہے کہ عام انتخابات ہر چار سال کے بعد لیپ کے سال میں جب ایک سال میں دنوں کی تعداد سب سے کم ہوتی ہے، کے نومبر میں پہلے منگل کو ہوا کریں گے مگر پہلا منگل پہلے سوموار کے بعد آنا چاہیے۔ گویا امریکا میں نومبر کی پہلی تاریخ کو انتخابات کا امکان مسترد کردیا گیا۔ وسط مدتی انتخابات بھی اسی اصول کے تحت ہر دو سال کی مدت کے بعد ہونگے۔ دو سو چھتیس سال ہوگئے امریکا میں انتخابات اسی دن ہوتے ہیں۔ اسی طرح دیگر جمہوری ممالک میں حکومت کی مدت کہیں تین سال ہے تو کہیں چار یا پانچ سال، کہیں سات سال بھی مقرر ہے۔ گویا ہر جمہوری ملک نے اپنے مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور دیگر افراد اور اداروں کے انتخاب کے لیے وقت یا تاریخ کا تعین کیا ہوا ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کے پارلیمانی جمہوری طرز حکومت کی طرف، صدارتی نظام کے برعکس پارلیمانی نظام میں انتخابات کے لیے مخصوص تاریخ یا وقت کا تعین کرنا ممکن نہیں ہوتا، حکومت پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کی جاتی ہے مگر حکومت اس مدت سے قبل ختم بھی ہوسکتی ہے اور یہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود کوئی بھی فرد یا جماعت حکومت نہ بناسکے اور بات نئے انتخابات تک چلی جائے۔ پاکستان میں اب تک ایوب خان کے صدارتی انتخاب کو چھوڑ کر کل گیارہ عام انتخابات منعقد کرائے گئے۔ پاکستان کے آئین کے تحت ہمیشہ حکومت اور پارلیمنٹ کی مدت پانچ سال مقرر ہوئی مگر آج تک کوئی بھی وزیراعظم اور حکومت ایسی نہیں جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہو۔ وزیراعظم اور حکومت کی اوسط مدت دو سال اور چند ماہ بنتی ہے۔ اسی طرح ایک دو کو چھوڑ کر کوئی پارلیمنٹ بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کرسکی۔ اس تاریخی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب حکومت اور اسمبلی کی مدت چار سال کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
پاکستان میں آئینی ترامیم کے بعد انتخابات کے لیے ایک سکیم متعارف کرائی گئی جس کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل 112 اور 224 میں تفصیل سے درج ہے۔ انتخابات کو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام وضع کیا گیا۔ ماضی کے برعکس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرانے کا نظام متعارف کرایا گیا۔ حکومت اور پارلیمان کی مدت پانچ سال ہی رہنے دی گئی۔ البتہ یہ احتمال ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ اگر قومی و صوبائی اسمبلی اپنی مقررہ مدت سے پہلے ختم ہوجائیں تو پھر نوے روز کے اندر نئے انتخابات کروائے جائیں اور اگر پانچ سالہ مدت پوری کرکے اختتام پذیر ہوں تو پھر نئے انتخابات ساٹھ روز کی مدت میں ہوں۔ آئین سازوں کی منشا یہی دکھائی دیتی ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی دن قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوں مگر ایسی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ پانچوں اسمبلیوں میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ اپنی مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کردی جائیں تو پھر انتخابات کس طرح اور کس تاریخ کو ہوں گے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے تحت وفاقی حکومت صوبے میں گورنر راج نافذ کرسکتی ہے جس کی مدت چھ ماہ ہے جو بڑھائی بھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی کی صورت میں قومی اسمبلی کی مدت ایک سال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ اگر آئین کے آرٹیکل 254 کو ملاکر پڑھیں، جس کے تحت اگر کوئی عمل آئین میں دی گئی مدت یا وقت پر نہیں ہوتا مگر بعد میں وہ عمل واقع ہوجاتا ہے تو اسے آئینی تحفظ حاصل ہے اور یہ غیر آئینی نہیں ہوگا تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آئین ایک مکمل انتخابی سکیم کی بات کرتا ہے تاکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرائے جاسکیں۔ (جاری)

ای پیپر-دی نیشن