آئین نے پارلیمان کی گود سے جنم لیا ، عدلیہ تشریح کرسکتی ، ری رائٹ نہیں : وزیراعظم
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئین کی پاسداری اور احترام کےلئے تمام اداروں اور پوری قوم کو یکسو ہونا پڑے گا۔ آئین نے پارلیمان کی گود سے جنم لیا۔ عدلیہ آئین کی تشریح کرسکتی ہے لیکن ”ری رائٹ“ نہیں کرسکتی۔ دنیا میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں کہ پارلیمان کے قانون، جبکہ ابھی وہ معرض وجود میں بھی نہ آیا ہو، پر عدالت حکم امتناعی جاری کردے۔ ہم انشاء اللہ اپنے سیاسی اثاثے کو ریاست بچانے کی خاطر قربان کرنے میں ایک لمحے کےلئے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ وہ جمعرات کو یہاںآئین پاکستان 1973ءکی موبائل ایپ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب، وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ بھی موجود تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ آئین کے ڈیجیٹل ایپ پر دستیاب ہونے سے طلباء و طالبات اور کروڑوں پاکستانی آئین کی منشا اور آئین پاکستان کی بنیادی اساس سے استفادہ کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حسن اتفاق ہے کہ میں 12 اکتوبر 1999 کو پی ٹی وی کی اس بلڈنگ سے گزرا جب ایک غیرآئینی قدم اٹھایا گیا تھا اور آج الحمد للہ آئین کے احترام اور آئین کی شقوں کو ہر خاص وعام تک پہنچانے کےلئے دوبارہ اس عمارت میں موجود ہوں۔ اس آئین کے بانیان جن میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، خان عبدالولی خان جیسی قدآور شخصیات تھیں جو اپنی سیاسی سوچ کے مطابق اپنی جماعتوں کی قیادت کررہے تھے لیکن آئین پاکستان کےلئے انہوں نے اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس آئین کو تخلیق کیا اور اس طرح رہتی دنیا تک ان کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج پھر آئین کی پاسداری اور احترام کےلئے تمام اداروں اور پوری قوم کو یکسو ہونا پڑے گا، آئین نے پارلیمان کی گود سے جنم لیا، آئین کی تشریح عدلیہ کرسکتی ہے، یہ اس کا اختیار ہے لیکن عدلیہ آئین کو ”ری رائٹ“ نہیں کرسکتی۔ یہ صرف اور صرف پارلیمان کا اختیار ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمہ اصول ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، مجھ سمیت ہم سیاستدانوں سے بے شمار غلطیاں ہوئیں اور بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور قوم کے اعلیٰ اور ارفع مقاصد کےلئے اپنی ذات کو قومی مفادات کے تابع کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یقیناً ہم نے سبق سیکھا ہے اور انشاءاللہ ہم پاکستان کے مشکل ترین حالات کو ٹھیک کرنے کےلئے دن رات کوشاں ہیں اور رہیں گے۔ میں بغیر کسی خود نمائی کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں بہت مشکل حالات میں یہ اقتدار ملا اور بغیر کسی سیاسی گفتگو میں جائے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کے اوپر پوری طرح یکسو ہیں کہ ہم انشاء اللہ اپنے سیاسی اثاثے کو ریاست کو بچانے کے لئے قربان کرنے میں قطعاً ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ہچکچائیں گے اور اسی طریقے سے میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں ہمیں اپنی غلطیوں کا ادراک ہونا چاہئے و ہیں ہمیں یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں ہونا چاہئے کہ اگر پارلیمان کوئی قانون بناتی ہے تو دنیا میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں کہ پارلیمان کے قانون کو جبکہ ابھی وہ معرض وجود میں بھی نہیں آیا ہو، عملی شکل بھی اختیار نہ کی ہو تو عدالت اس پر حکم امتناعی جاری کردے، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اور اس کے اوپر پارلیمان اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرے گی۔ اسی طریقے سے آئین کی عدالت عظمیٰ نے ہمیشہ تشریح کی ہے، یہ ان کا حق ہے اور یہ ہوتا رہا ہے لیکن کبھی آئین کو ”ری رائٹ“ نہیں کیا گیا۔ ڈکٹیٹرز نے اآئین کو توڑا ہے، اس کی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں لیکن ہم عدلیہ، عدالت عظمیٰ، بینچ اور بار سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کا تحفظ کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا آئین نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ عصر حاضر کا بہترین فیصلہ ہے، سکولوں میں پرائمری اور اعلیٰ درجوں میں یونیورسٹی کی سطح پر آئین کے نصاب کا حصہ بننے سے آئین اور قانون پاکستان کے بچے بچے کو یاد ہوجائے گا جس سے قانون کی حکمرانی میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف، پاکستان کی پارلیمان اور نادرا کے حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر جو اقدامات اٹھائے گئے وہ لائق تحسین ہیں۔ وزیراعظم نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ہماری نوجوان نسل آئین کی اس کتاب کا اچھی طرح مطالعہ کرے گی، اسے یاد کرے گی اور اس پر تعلیمی اداروں میں بحث ہوگی جس سے قانون اور آئین کی حکمرانی قائم ہوگی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ میںآج یہاں آئین کی پاسداری اور استحکام کےلئے آیا ہوں، 12 اکتوبر 1999ءکو جب میں یہاں سے گزرا تھا تو وہ ایک تاریک رات تھی ۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کوہمیشہ آباد رکھے۔ وزیراعظم شہبازشریف لاہور دورے پر پہنچ گئے۔ قبل ازیں انہوں نے اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم سے عسکری حکام نے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں حساس ادارے کے سربراہ بھی شریک تھے۔ ملاقات میں لیگی اور پیپلز پارٹی رہنما¶ں نے شرکت کی۔ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کو اپنے م¶قف سے آگاہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جلد بازی کے بجائے عدالت سے عید کے بعد کا وقت لیا جائے۔ پی ٹی آئی کی سب باتیں ماننی ہیں تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ملاقات کی۔ ملکی دفاع اور افواج پاکستان کے حوالے سے پیشہ ورانہ امور پر گفتگو کی۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے رہنما¶ں کا اجلاس ہوا۔ حکومتی قانونی ٹیم اور مشیر بھی شریک تھے۔ حکومتی لیگل ٹیم نے اجلاس کے شرکاءکو تفصیلی بریفنگ دی۔ سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق کیس پر غور کیا۔ انتخابات کیلئے آئندہ کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ جدید ترین روبوٹک سرجری جیسے اہم اقدام کے آغاز پر پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹرز تحسین کے لائق ہیں۔ جمعرات کو اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ عظیم فلاحی منصوبہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے عتاب کا شکار رہا۔ انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پی کے ایل آئی جگر اور گردے کے علاج اور پیوندکاری کے حوالے سے پاکستان کا جان ہوپکنز بنے گا۔ علاوہ ازیں وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب میں پاکستانی عمرہ زائرین کی بس کو حادثے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہارکیا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے واقعہ میں اللہ کو پیارے ہونے والے افراد کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی ۔ وزیراعظم نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کو متاثرہ افراد کو ہرممکن مدد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔
وزیر اعظم