عید تو ایسی ہی رہے گی
آج کل کیا عید ہے۔ عید تو پہلے ہوا کرتی تھی۔ایک تو ہم حال کے خوبصورت احساسات کو بھی ماضی کی یادوں کی نذر کر ڈالتے ہیں۔ آپ نے اپنے کسی بزرگ سے ایسی باتیں ضرورسنی ہوں گی۔ شاید آپ نے کسی کو ایسا کہا بھی ہو اور نہیں تو شاید کبھی کہہ دیں گے کہ اب کہاں وہ عیدیں۔ وہ زمانہ نہیں رہا۔ عید تو ہمارے وقتوں میں ہوا کرتی تھی،اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بہت کچھ واقعی بدل گیا ہے۔ وقت کے ساتھ انداز بدلا اطوار بدل گئے۔ مبارکبادوں کا انداز ہی دیکھ لیجیے۔ عید کارڈز خریدنا ، جس کو بھیجنا ہے اس کے ساتھ تعلق کی مناسبت سے شعر تلاش کرکے کارڈ پر خوش خط الفاظ میں لکھنا اور یہ کام مشکل اس لیے بھی ہو کرتا تھا کہ گوگل جیسے ہر فن مولا استاد کی پیدائش تو ابھی ہوئی نہیں تھی ، شعروں کی کوئی کتاب یا کسی شاعر مزاج دوست کی خدمات حاصل کرنا اور اپنے مطلب اور ضرورت کا شعرڈھونڈ کر کارڈ پر عید کے پیغام کے ساتھ تحریر کرنا اور پھر مقررہ وقت کے اندر اسے پوسٹ کرنا تاکہ وہ عید سے قبل ہی جسے بھیجا ہے اسے مل سکے اور پھر ایسا کوئی کارڈ ملا تو اسے سنبھال کر رکھ لینا۔یہ سب عید کی کچھ ناگزیر روایات کا حصہ تھا۔
پھر ٹیکنالوجی کی دوسری، تیسری اور چوتھی جنریشن نے اس خوبصورت روایت کو ختم ہی کردیا یا یوں کہیں اتنا آسان بنادیا کہ اس کی وقعت ہی ختم ہوکر رہ گئی۔ اب تو عید کارڈ ڈاؤن لوڈ کیا اور واٹس ایپ کے براڈ کاسٹ گروپ میں بھیج دیا چند سیکنڈ کے اندر اس ایک پیغام نے سینکڑوں لوگوں تک عید کا پیغام محبت پہنچا دیا۔ عید کارڈز تو صرف چاہنے والوں کو بھیجے جاتے تھے، آن لائن ڈاؤن لوڈڈ ڈیجیٹل کارڈز اور پیغامات تو ہر جاننے والے بلکہ کچھ تو ایسے لوگوں تک بھی بھیج دیے جاتے ہیں جن سے شاید پوری طرح جان پہچان بھی نہیں ہوتی۔ ٹیکنالوجی نے مبارکبادوں کے تبادلے سے خریداری تک سب آن لائن کردیا۔ اور تو اور عیدی بھی آن لائن ہوتی جارہی ہے، دادا جان، دادی جان عیدی دیدیں ابھی ابھی، جیسے الفاظ بھی اب سننے کو کم کم ہی ملتے ہوں گے۔ بچوں کی دلچسپیاں بھی ڈیجیٹل اور آن لائن ہی ہوچکی ہیں، اور بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن نہیں جناب ایسا بھی نہیں۔ ٹیکنالوجی کی چاہے کتنی اور جنریشنز آجائیں ہماری عید کی روح کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
عید تو نام ہے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا، روٹھوں کو گلے لگانے کا،ناراضگیاں مٹانے کا ،جن کا کوئی نہیں انھیں احساس دلانے کا کہ وہ اکیلے بالکل نہیں، ہم بھی تو ان کے ہی ہیں اور ان کے ساتھ ہیں، محروموں کی محرومیاں ختم کرنے کا۔ صبح سویرے اٹھنا، میٹھا کھانا، سب نے مل کر عید کی نماز ادا کی اوراپنوں، پرایوں،سب سے گلے ملے، بھلا کوئی ٹیکنالوجی اسے ختم کر سکتی ہے۔ گھر میں دعوتوں کے تبادلوں، مزیدار کھانوں اور کھانے کے دسترخوان پر اپنوں کی خوش گپیوں کا بھلا کوئی آرٹیفیشل انٹیلی جنس نعم البدل مہیا کر سکتی ہے۔ کسی چاہنے والے کا پیغام عید، واٹس ایب پیغام سے ہی کیوں نہ ملے خوشی تو دیتا ہی ہے۔ عید کا جوڑا آن لائن ہی کیوں نہ منگوالیا جائے، پہن کر عید کی نماز پڑھنے کی روایت تو برقرار رہے گی۔ چوڑیاں، مہندی گھر بیٹھے ہی منگوالی جائیں، مل کے ایک دوسرے کو لگانے اور پہننے کی خوشی تو کسی طور کم نہیں ہوتی۔ کھانا گھر میں نہ ہی بنایا جائے اور ہوم ڈیلیوری کی سہولت سے استفادہ کرلیا جائے، اپنوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانے کی لذت تو ختم نہیں ہوتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی نے زندگی بدل دی ہے۔ بہت سی آسانیاں پیدا کردیں اور کئی پرانی روایات ختم کردی ہیں۔ آگے بھی بہت کچھ بدلے گا۔ جو آج ہے وہ بھی شاید نہ رہے، آنے والے برسوں میں نئی ٹیکنالوجی، نئی آسانیاں اور نئی آسائشیں لائے گی، روایات بدلیں گی اور بہت سی نئی رایات جنم لیں گی، انداز بھی بدلیں گے لیکن جذبہ ،پیغام وہی رہے گا۔ پیار، خوشیاں اور محبتیں، عید اسی جذبے کا نام ہے۔
محبت اور خوشی کے جذبے کا نام اور اس جذبے کے اظہار کا انداز تو ٹیکنالوجی بدل سکتی ہے لیکن جذبے کو ہرگز نہیں۔ تو کوئی چاہے کیا کہے کیسے سوچے۔ عید ہمیشہ ایسی ہی رہے گی تو خوشیاں منائیں۔ اپنوں کے ساتھ اور ان کو بھی شامل رکھیں خوشیوں میں جو ہماری دنیا میں ہمارے ساتھ رہتے ہوئے ہمارے ساتھ نہیں ہوتے۔ کسی وجہ سے ناراض ہیں دلوں میں کوئی داریاں ہیں۔ سب دور کرنے کا یہی تو موقع ہے۔ ایک خوشی اور مسکراہٹ بھری عید مبارک کا نعم البدل کسی ٹیکنالوجی کے پاس ہے نہ ہوسکے گا۔ ٹیکنالوجی کی کوئی بھی زبان ہو یہ الفاظ تو کبھی نہیں بدلیں گے اور بھائی! اپنی تو عید ہمیشہ ایسی ہی میٹھی رہے گی اور سب ایسے ہی کہتے رہیں گے، عید مبارک!
٭…٭…٭