• news

سیاسی مفاہمت کیلئے پیش رفت کے معدوم ہوتے امکانات

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن کرانے سے متعلق وزارت دفاع کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پنجاب کے 14 مئی کے انتخابات کیلئے عدالت اپنا فیصلہ واپس نہیں لے گی کیونکہ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے تاہم سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوئی تو عدالت کے احکامات کے حوالے سے غور کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت عیدالفطر کے بعد 27 اپریل تک ملتوی کر دی۔ فاضل چیف جسٹس نے دوران سماعت دعا کی کہ مولا کریم ہمیں لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر تاکہ ہمارے جانے کے بعد ہمیں اچھے لفظوں میں یاد رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نیک کام شروع کیا ہے۔ اللہ اس میں برکت ڈالے گا اور عدالت بھی اس نیک کام میں حصہ ڈالے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے دوسری سیاسی قیادتوں کی بھی کمرۂ عدالت میں موجودگی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قوم میں اس وقت اضطراب ہے اس لئے قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائیگا۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے چیمبر میں اٹارنی جنرل سے ملاقات کے دوران انکی یہ استدعا مسترد کر دی کہ فاضل عدالت 14 مئی کے انتخابات سے متعلق اپنے احکام پر عملدرآمد روک دے۔ 
اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ پنجاب اور خیبر پی کے کی تحلیل کردہ اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملہ میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے ایک دوسرے کے مدمقابل آنے سے پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتے بڑھتے ملک کو انتشار‘ خلفشار‘ انارکی اور عملاً خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہا ہے جس سے مروجہ سسٹم ہی نہیں‘ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہم انہی سطور میں بار بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ ریاستی‘ آئینی‘ انتظامی اداروں کو آئین کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں اور انکی جو حدودوقیود متعین ہیں‘ اگر انکے اندر رہ کر ہی فرائض منصبی ادا کئے جائیں تو آئین و قانون کی پاسداری میں کوئی جھگڑا یا تنازعہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کبھی ریاستی‘ آئینی اداروں کے ایک دوسرے کے مدمقابل آنے کی نوبت آسکتی ہے۔ ہمارے ماضی کے تجربات و مشاہدات یہی بتاتے ہیں کہ ریاستی اداروں کے مدمقابل آنے اور ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے سے مروجہ سسٹم ہی زد میں آتا ہے جس سے آئین کی عملداری پاسداری بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں نے ماضی کی غلطیوں سے کبھی سبق حاصل ہی نہیں کیا چنانچہ ادارہ جاتی اختیارات کی کشمکش میں سسٹم کو جھٹکے لگتے ہی رہتے ہیں۔ ملک میں جاری ہیجان و خلفشار کی موجودہ فضا بھی بادی النظر میں اسی تناظر میں ہموار ہوئی ہے جس میں بنیادی کردار ہماری سیاسی قیادتوں میں اقتدار کی کھینچا تانی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی منافرت نے ادا کیا ہے جس نے ہمارے ریاستی‘ آئینی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا جہاں معاشرے میں اپنے اپنے ممدوحین کے ساتھ نفرت و عقیدت کے آزادانہ اظہار کے باعث پیدا ہونیوالی تقسیم کی طرح ریاستی اداروں میں بھی واضح تقسیم اجاگر ہونے لگی جبکہ انصاف کے اعلیٰ ترین فورم پر واضح تقسیم نظر آنا سب سے بڑا المیہ ہے۔ 
سپریم کورٹ میں یہ تقسیم بالخصوص دو صوبائی اسمبلیوں کی سیاسی مقاصد کے تحت تحلیل اور پھر ان اسمبلیوں کے 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات کیلئے الگ الگ حکمت عملی اور عدالتی احکام پر بالاصرار عملدرآمد کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ اس معاملہ میں جس طرح مخصوص بنچ تشکیل پاتے اور چیف جسٹس کے ساتھ برادر ججوں کے تحفظات کے اظہار کے نتیجہ میں ٹوٹتے رہے وہ سپریم کورٹ میں تقسیم کے واضح عکاس تھے جبکہ ایسی فضا میں عدلیہ اور عدالتی احکام و فیصلوں کی حرمت و پاسداری کی توقع رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ آزمائش کے یہ مراحل اس وقت بھی سیاست و عدالت میں حاوی نظر آتے ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے آئینی‘ انتظامی اختیارات کی وکالت کررہی ہے اور کسی دوسرے ادارے کی جانب سے ان اختیارات میں کسی قسم کی مداخلت قبول نہ کرنے کے عزم پر کاربند ہے اور بادی النظر میں سپریم کورٹ نے بھی بالخصوص پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے مقررہ آئینی میعاد کا تقاضا پورا کرانا اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہے جبکہ یہ آئینی تقاضا خود سپریم کورٹ کے احکام کے تحت بھی پورا نہیں ہو پایا۔ اس ادارہ جاتی رسہ کشی کا نتیجہ بھی دیوار پہ لکھا نظر آرہا ہے جو پورے سسٹم کے تاراج ہونے والا ہے جس میں ادارہ جاتی آئینی اختیارات بھی آئین کی طرح عضوِ معطل ہوجاتے ہیں۔ 
یہی وہ حالات ہیں جو قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں سے معاملہ فہمی کے متقاضی ہیں اور اپنے پیدا کردہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے کیلئے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس معاملہ میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پیش رفت کرتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے روابط اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا اور عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے جماعت اسلامی کی میزبانی میں انعقاد کا عندیہ دیا جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے بھی اس پیش رفت کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام قومی سیاسی قیادتوں کو عدالت میں بلالیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے اگرچہ یہ ٹھوس عندیہ دیا ہے کہ سیاست دان باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ معاملہ آگے بڑھائیں تو عدالت 14 مئی کے انتخابات کے معاملہ میں اپنے احکام پر غور کر سکتی ہے۔ اسکے برعکس فاضل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے ملاقات کے دوران 14 مئی کے انتخابات سے متعلق عدالت کے احکام پر عملدرآمد روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی جو برف کو پگھلنے کیلئے راستہ نہ دینے کے ہی مترادف ہے۔ چنانچہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں جاری رسہ کشی اپنے منطقی انجام کی جانب ہی بڑھے گی۔ 
اس وقت حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کے مابین مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ آئین نے پارلیمان کی گود سے جنم لیا ہے‘ عدلیہ آئین کی تشریح کر سکتی ہے مگر اسے ’’ری رائیٹ‘‘ نہیں کر سکتی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منافرت کی اس فضا میں یہ کہہ کر ماحول مزید گرمانے کی کوشش کی کہ بندوق اور ہتھوڑے کے زور پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ہم سپریم کورٹ کے ’’چار تین‘‘ کے فیصلے پر ہی عمل کرینگے۔ انکے بقول ملک میں ون یونٹ لانے کی سازش ہو رہی ہے۔ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے معاملہ میں انتہائی سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز یہ اعلان کیا اور پھر اس اعلان پر عمل بھی کیا کہ ہم سپریم کورٹ جائیں گے نہ اس سے سیاسی معاملات پر بات چیت ہوگی۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہ عدالت ہے یا پنجایت۔ اس صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملہ فہمی سے کام لینے کیلئے کوئی فریق بھی آمادہ نہیں۔ حکومتی اتحادیوں نے عید کے بعد اپنا حتمی لائحہ عمل طے کرنا ہے جنہوں نے اپنی مخالف پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ عملاً بند کر دیا ہے۔ اگر آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھ کر ماحول اسی طرح گرمایا جاتا رہا تو لاوا پھٹنے میں بھلا کیا دیر لگے گی۔ 

ای پیپر-دی نیشن