لندن پلان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج کل گاہے بگاہے لندن پلان کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کا پلان بنایا ہے- اس پلان کے مطابق ان پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا جس میں اللہ تعالی نے ان کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا- لندن عالمی سازشوں کا مرکز رہا ہے- دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے قوم پرست لیڈروں کو قتل کرنے کے منصوبے لندن میں بنتے رہے ہیں- لندن کرپٹ افراد کی آماجگاہ بھی ہے-
دنیا کے مختلف ممالک سے قومی دولت لوٹنے والے آسانی کے ساتھ برطانیہ پہنچ جاتے ہیں اور اپنی لوٹی ہوئی رقم آف شور کمپنیوں اور مختلف بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں - برطانوی حکومت ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے-
ہندوستان کی آزادی سے پہلے ہندوستان کے مقدر کے فیصلے بھی لندن میں کیے گئے- اس سلسلے میں تین گول میز کانفرنسیں بلائی گئیں- قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو صرف جغرافیائی آزادی دینے اور باقی آزادیاں سلب کرنے کا پلان بھی لندن میں تیار کیا گیا- جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان کی روح کے مطابق اور قائد اعظم و علامہ اقبال کے تصور کے مطابق پاکستان کے سیاسی و معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے نفاذ کا فیصلہ کیا تو لندن پلان کے مطابق ان کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا- امریکہ برطانیہ پاکستان کی ملٹری اور سول بیورو کریسی پاکستان کے بڑے تاجروں اور جاگیرداروں کے درمیان خاموش معاہدہ طے پایا کہ پاکستان میں برطانوی نظام کو جاری و ساری رکھا جائے گا-
بدقسمتی سے برطانوی کلونیل سسٹم پاکستان میں آج بھی رائج ہے جو ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے- پاکستان کا جو بھی قوم پرست لیڈر کلونیل سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے سیاسی منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے- امریکہ اور برطانیہ پاکستانیوں کو تعلیمی وظیفے اور روزگار کے مواقع دینے میں بڑے لبرل ہیں تاکہ پاکستان کے خاندان اور افراد ان کے ساتھ جڑے رہیں-
1973ء میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نے ایک پریس بریفنگ میں ولی خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل کر لندن میں ایک سازش تیار کی ہے جس کے تحت پاکستان کے صوبوں کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار بنادیا جائے گا - اس سلسلے میں عراقی سفارت خانے سے بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا گیا جو علیحدگی پسند عناصر کو دیا جانا تھا- اس سازش کے تناظر میں بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو ختم کر دیا گیا جس کے ردعمل میں مولانا مفتی محمود نے ( سرحد )خیبر پختونخوا کی حکومت کو توڑ دیا-سپریم کورٹ نے حکومتی ریفرنس کی سماعت کے بعد عوامی نیشنل پارٹی پر غداری کے الزام میں پابندی لگا دی-
1984 میں جنرل ضیاء الحق نے ایک درجن کے قریب فوجی افسروں کو گرفتار کرلیا اور الزام لگایا کہ لندن میں ملک مصطفی کھر نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے مل کر ایک سازش تیار کی تھی جس کا مقصد جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا تختہ الٹانا تھا-ناقابلِ تردید شہادتوں تہمینہ کھر آجکل تہمینہ درانی کی کتاب’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ سے یہ ثابت ہوا کہ مصطفی کھر نے ویزے کے بغیر ہندوستان کا دو مرتبہ دورہ کیا تھا- ملتان روڈ لاہور پر ایک گھر سے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا جو مبینہ طور پر بھارت سے سمگل کیا گیا تھا-
2014 ء میں نواز شریف حکومت کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے لندن میں ملاقات کر کے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا ہے جس کے تحت 126 دن کا دھرنا دیا گیا- عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی- پاکستان کے عوام نے ڈاکٹر طاہر القادری کی کال پر لبیک نہ کہا اور منصوبے کے مطابق 5 لاکھ افراد اسلام آباد میں جمع نہ ہو سکے- البتہ پاکستان عوامی تحریک کے انقلابی اور نظریاتی کارکنوں نے جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ ساز مثال قائم کی اور آنے والی نسلوں کو پیغام دیا کہ عوام کے دکھوں کا واحد حل عوامی انقلاب ہی ہے-
بلا شک عمران خان کی جان کو ان کرپٹ عناصر سے خطرہ ہے جو ان کو اپنے ذاتی گروہی سیاسی مفادات کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں- زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے البتہ احتیاط لازم ہے- تحریک انصاف اس وقت ہجوم کی شکل میں ہے اس کا کوئی مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے- عمران خان اگر یونین کونسل کی سطح پر اپنی پارٹی کی تنظیموں کو مضبوط اور فعال بنا لیں تو ان کے مخالف ان پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے اور اس خوف میں مبتلا رہیں گے کہ اگر ان کو قتل کیا گیا تو پاکستان کی ہر یونین کونسل میں شدید ردعمل ہوگا -
محترم بیرسٹر حامد خان اور محترم تسنیم نورانی نے یونین کونسل کی سطح پر انتخابات کا میکانزم تیار کر رکھا ہے ایک ماہ کے اندر پاکستان کی تمام یونین کونسلوں میں پارٹی انتخابات مکمل کیے جا سکتے ہیں- منظم اور فعال پارٹی ہی اپنے لیڈروں کے دفاع اور امیدواروں کی انتخابی کامیابی کی ضامن بن سکتی ہے- اگر خدانخواستہ لندن پلان پر عملدرآمد کیا گیا تو پاکستان میں نفرتیں بڑھیں گی جس سے پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں-