منگل ‘ 4 شوال 1444ھ‘ 25 اپریل 2023ء
بھارتی ریاست منی پور کے وزیر اعلیٰ نے بھی الحاق کا معاہدہ جعلی قرار دیدیا
یہ صرف منی پور کا ہی مسئلہ نہیں۔ اس وقت کم و بیش بھارت کی پندرہ ریاستوں میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ ان میں مقبوضہ کشمیر کی بات چھوڑیں کشمیری تو روز اول یعنی تقسیم برصغیر کے وقت سے بھارت کے جبری الحاق کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ کشمیر کے علاوہ بھارت میں بنگلہ دیش سے ملحقہ علاقوں میں جو ریاستیں بھارت کے جھانسہ میں آ کر اپنی خودمختاری کے تحفظ کے نام پر بھارت سے ملحقہ ہوئیں‘ بھارت نے انہیں بھی اطمینان سے آہستہ آہستہ ترنوالہ بنا لیا۔ یہ ریاستیں ’’سیون سسٹرز‘‘ سات بہنوں کے نام سے مشہور ہیں اور ان سب کو بھارت نے اپنی ریاستوں کا درجہ دے کر ہڑپ کر لیا۔ ان میں سے ارونا چل پردیش پر تو بھارت اور چین میں ٹکرائو بھی ہے جسے حال ہی میں بھارت نے سکم کی طرح ہڑپ کر لیا ہے۔ اب ایک طرف خالصتان بھارت کی جان کھا رہا ہے۔ دوسری طرف کشمیر نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ ادھر اب منی پور نے بھی کھل کر الحاق کا جبری معاہدہ مسترد کر کے علیحدگی کی حمایت کی ہے۔ یہ بات علیحدگی پسند تنظیموں نے نہیں‘ خود منی پور کے وزیر اعلیٰ نے کہی۔ جو بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ 1980ء سے لے کر اب تک یہاں علیحدگی پسندوں اور بھارتی فوج کے ہزاروں افراد اس پر تشدد خونی تحریک میں جان گنوا بیٹھے ہیں مگر بھارت کی سفاک پالیسی جاری ہے۔ یہ تو وہی ساحر لدھیانوی والی بات ہے۔
دبے گی کب تلک آواز آدم ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے
چلو یوں ہی سہی یہ جو رو پیہم ہم بھی دیکھیں گے
زبردستی اور جبر کے رشتے کبھی زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ بھارت کو آج نہیں تو کل۔ منی پور، ناگاہ لینڈ، میگالے، تری پور ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ اب خالصتان سے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹنا ہو گا۔ آج نہیں تو کل یہاں آزادی کی سحر طلوع ہو گی۔
٭٭٭٭٭
علی امین گنڈاپور کے لمبے بال کٹنے پر ان کے بھائیوں نے بھی بال کٹوا دئیے
ایک بات تو واضح ہے کہ اگر علی امین گنڈا پور کے دراز گیسو ان کے مرضی کے خلاف زبردستی کاٹے گئے ہیں تو یہ ایک شرمناک بات ہے۔ ایسی حرکت کا کوئی جواز نہیں۔ گزشتہ دنوں جب انہیں عدالت میں پیشی پر لایا گیا تو ان کی تراشی ہوئی مونچھیں اور بال دیکھ کر ان کی شخصیت کا رعب دار تصور ہی غائب ہو گیا۔ وہ یکدم خاص کی جگہ ایک عام آدمی نظر آنے لگے۔ اگر انہوں نے خود اپنی مرضی سے یہ دراز بال اور گھنی لمبی مونچھیں کٹوائی ہیں تو الگ بات ہے۔ ویسے بھی حوالات ہو یا جیل‘ سر کے بالوں کو سنبھالنا‘ ان کی کنگھی کرنا‘ تیل لگانا اور سلجھا کر رکھنا‘ بذات خود ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بندہ سو کر اٹھے تو بھوت بنا نظر آتا ہے اور آئینہ میں اپنی شکل دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔ اب شاید اپنی ہیت کذائی دیکھ کر ہی علی امین نے شاید بادل نخواستہ بال اور مونچھیں کٹوانے کا فیصلہ کیا یا اس کام میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ پتہ نہیں انہوں نے شوقیہ یہ بال رکھے تھے یا وہاں کا کلچر ہے مگر اب ان کے دو بھائیوں نے بھی ان سے اظہار یکجہتی کے لئے اپنے بال کٹوا دیئے ہیں۔اب کہیں پی ٹی آئی والے بھی ٹنڈ کرانے نہ نکل پڑیں۔ دوسری طرف علی زیدی کو دیکھ لیں‘ ان کے خلاف مقدمے اور ان کی گرفتاری پر شور مچایا گیا۔ عمران خان نے علی امین اور علی زیدی کی گرفتاری کو سیاسی غنڈہ گردی قرار دیا۔ دونوں کو قابلِ فخر ہیرو ساتھی قرار دیدیا۔
مراد سعید نے بھی اپنے محفوظ قلعے میں بیٹھ کر ان کو مجاہد کہا۔ مگر یہ کیا ہوا کہ زیدی جی نے نہایت خاموشی سے عدالت سے بالا بالا باہر ہی مدعی مقدمہ سے مک مکا کر کے صلح کر لی اور یوں ان کی ضمانت منظور ہوئی۔ اس کے باوجود عدالت کے باہر نجانے کیوں کارکنوں نے ان پر گل پاشی کر کے جشن منایا۔ ایک بات پر البتہ ان دونوں رہنمائوں کو اپنے قائد عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ابھی تک ان دونوں پر اس قسم کے تشدد کا الزام نہیں لگا۔جو پولیس پر وہ اعظم سواتی اور شہباز گل جیسے اپنے رہنمائوں کے حوالے سے لگا چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عید پر گھر جانے اور واپس آنے والے ٹرانسپورٹروں کے ہاں لٹتے رہے
اسی لیے عید پر مسافروں کا گھر آنا اور واپس جانا درد سر بن گیا ہے۔ بحیثیت قوم ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ہم ہر وقت لوٹنے نوچنے کھسوٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پورے ملک میں رمضان کا مبارک مہینہ دیکھ لیں‘ نصیحت واعظ اور خوف خداوندی کے تمام تر پرچار کے باوجود کسی ایک طبقے میں بھی خوف خدا پیدا نہیں کر سکا۔ وہی لوٹ مار ، بے ایمانی ، دجل فریب کا کاروبار جاری رہا ۔مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے جوتے پہنتے ہی ہم یہی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ دوسروں کو لوٹ سکیں۔ اسی لالچ اور حرص کی وجہ سے ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔
اب ذرا ان پردیسیوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں جو گھر سے دور دوسرے شہروں میں ملازمت کرنے آتے ہیں تاکہ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کا پیٹ پالیں۔ سال بعد عید الفطر پر یہ بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر کچھ جمع پونجی لے کر تھوڑا بہت سامان لے کر بس اڈوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں ٹرانسپورٹ مافیا انسانوں کی شکل میں شیطان یا بھیڑیا بن کر ان کو بھنبھوڑنے کے لیے تیار ملتا ہے۔ سارے سال کی کمائی انہی مجبور مسافروں سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی حال عید کہ بعد واپسی پر نظر آتا ہے۔
دوسری طرف ہماری دشمن بھارت میں صرف ریل کے محکمہ نے ہی جو دنیا کی سب سے بڑی ریل سروس میں سے ایک ہے‘ گزشتہ سال کئی سو ارب روپے منافع کمایا۔ وہاں دور نزدیک چھوٹے بڑے شہر و دیہات کو ریل سروس سے جوڑا گیا ہے جو کم قیمت پر مسافروں کو لانے لے جانے میں ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ہمارے ہاں محکمہ ریلوے کو لوٹ مار کا محکمہ بنا کر بے کار کی فوج ظفر موج بھرتی کر کے تباہ کر دیا گیا ہے اور عوام کو لالچی ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو دونوں ہاتھوں سے مسافروں کو لوٹ رہا ہے اور حکومت اپنے مقرر شدہ کرایوں پر بھی عمل کروا نے میں ناکام نظر آتی ہے۔