• news

سیاسی قیادت کے مابین مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں

سیاسی کشیدگی کے اس دور میں یہ خبر خوش آئند ہے کہ بالآخر حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف میں مذاکرات کا آغاز ہونے جارہا ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مذاکرات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ سکیں گے یا نہیں کیونکہ دونوں طرف سے جس طرح کی شرائط کو بنیاد بنا کر مذاکرات کرنے کی بات کی جارہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فریقین ابھی تک اپنی اناؤں کے اسیر ہیں۔ خیر، اطلاعات بتاتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے نامزد کیے گئے نمائندوں وفاقی وزیر سردار ایاز صادق، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سپیکر کا عہدہ سنبھالنے والے اسد قیصر سے رابطہ کیا ہے۔ اسد قیصر نے حکومتی نمائندوں کے رابطے سے متعلق پیش رفت سے پارٹی سیکرٹری جنرل اسد عمر کو آگاہ کردیا ہے۔ اسد عمر نے اس سلسلے میں کہا کہ رابطہ اچھی بات ہے، حکومتی نمائندے سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت اس پیش رفت سے آگاہ کردیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کیا کہا جائے گا اس کا دار و مدار عدالت کے اندر اس وقت پیدا ہونے والے ماحول پر ہے۔ گزشتہ سماعتوں کے دوران عدالت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل عرفان قادر کے درمیان ایسی گفتگو ہوئی جس سے محاذ آرائی کا تأثر ملتا ہے۔ اب پارلیمان نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل 2023ء کو منظور کرتے ہوئے اسے قانون بنا کر اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ اس قانون سے متعلق عدالت پیش اقدام کرتے ہوئے یہ قرار دے چکی ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس صورتحال میں مقننہ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی کی جو فضا پیدا ہورہی ہے وہ صرف اداروں ہی نہیں بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
ادھر، وزیراعظم محمد شہبازشریف کی سرکاری چھٹیوں کے دوران بھی لاہور میں بھرپور سیاسی مصروفیات جاری رہیں۔ شہباز شریف سے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی اعلیٰ قیادت اور قانونی ماہرین نے اہم ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران وزیراعظم نے لیگی رہنماؤں اور قانونی ماہرین سے ملکی سیاسی و آئینی صورتحال اور ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے کیس سے متعلق تفصیلی مشاورت کی۔ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والوں میں خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق، اعظم نذیر تارڑ، ملک احمد خان اور لیگی رہنما شزا فاطمہ، سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان شامل تھے۔ شہبا ز شریف کی ان سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نون لیگ معاملات کو سلجھانے کے لیے کوششوں میں مصروف تو ہے تاہم اس کی یہ کوششیں کس حد تک بار آور ہوں گی اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کے حوالے سے جو کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے لیے عدالت نے اگلی تاریخ 27 اپریل مقرر کررکھی ہے، اور پچھلی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کہہ چکے ہیں کہ اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں۔ حالات کو اس نہج تک آنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ ریاست کے ستون ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے اور ایسے موقف اختیار کر لیے جاتے جن پر کوئی بھی فریق سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے جس کی زیادہ ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہے کیونکہ عوام کی توقعات اول درجے میں سیاسی قیادت ہی سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایک عام آدمی ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے انتظامیہ یا مقننہ کی طرف دیکھتا ہے، عدلیہ کے بارے میں وہ ایسا نہیں سوچتا کہ وہ مذکورہ مسائل کا حل فراہم کرے گی۔
اب سیاسی قیادت نے جو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے یہ ہر اعتبار سے بہت مناسب اور معقول ہے۔ ملک اس وقت جس سنگین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے اس سے نکلنے کی صورت بھی سیاسی قیادت کے باہمی مشوروں ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت کے مابین جاری آویزش ختم ہو جاتی ہے یا وقتی طور پر اس میں تعطل آ جاتا ہے تو کئی معاملات مزید بگڑنے سے فوری طور پر رک جائیں گے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب فریقین اپنے اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرتے ہوئے دوسرے کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ 26 اپریل کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے ملاقات سے قبل اتحادی جماعتوں کا سربراہی اجلاس بھی ہورہا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس اجلاس میں اتحادی جماعتیں ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے لیے کسی لائحہ عمل پر اتفاق کرلیں گی۔
پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری بھی آگے بڑھنے کے لیے مذاکرات کی تجویز کی حمایت کرچکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہو۔اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی بھی کہہ چکے ہیں کہ عدالت نے ایک تاریخ دیدی ہے، جو کچھ ہمیں کرنا ہے وہ ڈیڈلائن گزرنے سے پہلے کرنا پڑے گا۔ مذاکرات کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بن سکتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کا موقف بار بار بدل جاتا ہے اور دوسرا وہ سیاسی رہنما کی بجائے ایک کلٹ لیڈر بن کر بات کرتے ہیں جس سے معاملات بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں۔ عمران خان چاہیں یا نہ چاہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مسائل میں سیاسی قیادت اس وقت الجھی ہوئی ہے ان کا حل صرف مذاکرات اور سمجھوتے کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن