• news

الٰہی خیر ہو

یہ محض آئینی‘ عدالتی‘ سیاسی اور پارلیمانی تنازعات و تحفظات نہیں بلکہ اختیارات‘ انائوں اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے۔ اس میں نقصان کس کا ہونا ہے‘ یہ بھی نوشتۂ دیوار ہے۔ تو جناب! قوم کو کیوں اضطراب و خلفشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ تو پہلے ہی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دھکے کھاتے کھاتے نڈھال ہو چکی ہے۔ قوم کے بچوں کی تو عید کی خوشیوں سمیت ہر خوشی کافور ہو چکی ہے جنہیں اپنا مستقبل تاریک ہی تاریک نظر آرہا ہے اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بھارت کیلئے ریشہ خطمی ہونے کے حوالے سے سامنے آنیوالے اور قومی غیرت و حمیت کو بٹہ لگانے والے انکشافات کے بعد قومی خودداری اور ملکی سلامتی کے معاملات بھی تشویش کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ادارہ جاتی سطح پر ہر ایک نے ملک اور ملکی آئین و قانون سے کھلواڑ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ سسٹم کے تلپٹ ہونے کی راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تو بھائی صاحب! 
آخر گلہ کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
کیسے زمیں کی بات کریں آسمان سے ہم 
خدا لگتی کہیئے۔ کیا ہمارا چلن آبرومندی کے ساتھ دنیا میں سر اٹھا کر چلنے والی قوم کا ہے۔ کیا ہماری قیادتوں کو آئین‘ قانون اور سسٹم تو کجا‘ ملک کی سلامتی و استحکام کی بھی کوئی فکرمندی ہے اور باہم دست و گریباں ہو کر ہم کس کی خدمت کر رہے ہیں‘ کس کیلئے راستے ہموار کر رہے ہیں پھر:
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا 
آپ اندازہ لگائیے‘ اس وقت ملک کی دھرتی پر ہماری سیاست و معیشت اور ہماری عدالت و حکومت کا کیا نقشہ بنا ہوا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کسی سوموار کا سورج قوم کیلئے کسی بہتری کی نوید لے کر طلوع ہونے کی خوشخبری سناتے ہیں اور اس روز آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر معاملات مزید الجھا جاتے ہیں۔ پھر عید سے دو روز قبل عدالت میں سیاست دانوں کی پنچایت لگا کر انہیں ایک ہی دن انتخابات کی کسی تاریخ پر متفق ہونے کا درس دیتے ہیں اور خود پنجاب اسمبلی کے انتخاب کیلئے مقرر کی گئی اپنی 14 مئی کی تاریخ میں ردوبدل کی بات کرنا بھی عدالتی احکام کی توہین گردانتے ہیں۔ 
دوسری طرف قومی سیاسی قیادتیں باہمی منافرت و حقارت کو بڑھاوا دیتے ہوئے افہام و تفہیم کیلئے مذاکرات کا ڈول ڈالتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی تین رکنی کمیٹی پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر سے رابطہ کرتی ہے اور ایک ہی دن انتخابات کے معاملہ میں افہام و تفہیم کا منظر قوم کو دکھاتی ہے مگر اس رابطے کے دوران ہی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے عدالتی اصلاحات بل کے قانون کے قالب میں ڈھلنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ یہ پیغام درحقیقت سپریم کورٹ کے اندر پیدا ہونیوالی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر سسٹم میں پیدا ہونیوالے خلفشار کو مزید آگے بڑھانے کا ہے جس کے پیچھے اپنی اپنی انائیں ہی ’’وج گج‘‘ کے بول رہی ہیں۔ صدقے واری جائیے اپنے عالی دماغوں کے۔ باہمی افہام و تفہیم کی تانیں بھی لگائی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے مشاورت کے راستے بھی کھول رکھے ہیں اور اپنے پیدا کردہ مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کیلئے گنجھلیں بھی ڈالنے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ گویا:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
اب ہونا کیا ہے‘ صاف نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے سیاسی بقاء کا ایک ہی سہارا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی صورت میں موجود رہ گیا ہے جنہوں نے ستمبر کے وسط میں اپنے منصب سے ریٹائر ہوجانا ہے اور پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قاضی القضاۃ کا منصب سنبھالنا ہے اس لئے پی ٹی آئی قیادت اور اسکی قیادت کے ’’منصب دار‘‘ ممدوحین کی جانب سے ساری حکمت عملی اس عرصے کے اندر اندر کچھ کر گزرنے کی طے ہوئی ہے۔ انتخابات کے 90 دن کے اندر اندر انعقاد کا آئینی تقاضا تو 14 مئی کی تاریخ مقرر کرنے اور خیبر پی کے میں اس آئینی تقاضے کو یکسر نظرانداز کرنے سے ہی فارغ ہو گیا تھا۔ اب کوشش بس یہی ہے کہ ’’اسکے بعد آئے جو عذاب آئے‘‘ کے مصداق چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے سے پہلے پہلے مارا ماری کرلی جائے۔ 
ایسا ہی معاملہ عدالتی اصلاحات بل کی صورت میں سامنے آیا۔ جب حکمران اتحادیوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ چیف جسٹس صاحب کے صوابدیدی اختیارات کی موجودگی میں انصاف کے ترازو کا پلڑا انکی بجائے انکے مخالفین کی جانب جھکا رہے گا تو انہوں نے اس پلڑے کو ہی غیرمؤثر بنانے کی ٹھان لی۔ یکایک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل تیار کرکے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا اور اسے فٹافٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرالیا۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد لامحالہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ کے تین فاضل سینئر ججوں کی کمیٹی کو منتقل ہو جانے تھے چنانچہ سیاسی اور عدالتی موشگافیوں نے اس بل کے قانون بننے سے پہلے ہی اسکے پر کاٹنے کا راستہ دکھا دیا۔ چیف جسٹس صاحب نے آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر اس قانون کے نافذ ہونے سے پہلے ہی اس پر عملدرآمد روک دیا۔ اس سے اختیارات کی کشمکش میں مزید شدت پیدا ہو گئی اور ایک دوسرے کی ناک‘ کان‘ ہاتھ پائوں توڑنے کا منظرنامہ بن گیا۔ یہ کوئی آئین و قانون کی پاسداری اور انصاف کی عملداری والا معامعلہ تو ہرگز نہیں رہا سو ہر کوئی اپنے اپنے دائو پیچ لگا اور حربے آزما رہا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے لاگو ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اسکے ساتھ ہی دو بزرگ خواتین کی آڈیو کیسٹ بھی منظر عام پر آگئی۔ اس پر ایک سائیڈ دفاعی پوزیشن پر آگئی اور دوسری سائیڈ نے جارحانہ طرز عمل اختیار کرلیا۔ 
اس فضا میں اب گھمسان کا رن سپریم کورٹ کے اندر پڑتا نظر رہا ہے۔ یہ مرحلہ یقیناً چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی آزمائش کا مرحلہ ہے۔ وہ یقیناً آئین کی پاسداری اور انصاف کی عملداری کے نام پر حکومت‘ حکومتی اتحادیوں اور شاید پوری پارلیمنٹ کو توہین عدالت کی سزا کا مستوجب ٹھہرائیں گے مگر سزا سے متعلق عدالتی احکام پر عملدرآمد کرانے کے ذمہ دار دوسرے تمام ریاستی آئینی ادارے تو سپریم کورٹ کے چار تین والے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں اور سپریم کورٹ کے اندر بھی یہی ’’فیصلہ‘‘ کلکاریاں بھرتا نظر آرہا ہے۔ جناب! چیف جسٹس صاحب نے خود ڈنڈا پکڑ کر تو متعلقین سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرانا۔ جن ریاستی اداروں نے کسی عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے‘ وہ ہی دم نہیں بھریں گے تو پھر جناب تماشے کا میدان لگتا اور سجتا دیکھنے کیلئے تیار رہیے۔ ہماری عدالتی تاریخ ایسا منظرنامہ 1997ء میں بھی بھگت چکی ہے۔ اب متعلقہ ریاستی اداروں کے نزدیک تو عدالتی اصلاحات کا قانون لاگو ہو چکا ہے جس کے خلاف جاری حکم امتناعی چار‘ تین والے فیصلے کے تناظر میں غیرمؤثر کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے اندر ہی ہونیوالا ہے۔ اس پر ’’شورِمحشر‘‘ اٹھے گا تو پھر ماضی جیسا ننگا مارشل لاء یا ایمرجنسی ہی اس پر قابو پائے گی۔ اپنی سیاست و قیادت اور سسٹم کے بخیئے اپنے ہاتھوں ہی ادھیڑنے والوں کو تب سمجھ آئیگی کہ وہ اپنی اپنی انائوں کی تسکین کا اہتمام اور اپنے اپنے مفادات کی پاسداری کرتے کرتے کیا کر بیٹھے ہیں۔ ماضی میں تشکیل پاتے اپوزیشن اتحادیوں کی ساری کتھا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کا مفصل تذکرہ کسی دوسرے کالم میں کروں گا مگر آنیوالا منظرنامہ بھی ماضی کی طرح باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو آئین و جمہوریت کی بحالی کیلئے اپوزیشن اتحاد کی شکل میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہوتا دکھا رہا ہے۔ یہ ممکنہ جدوجہد کتنی طویل‘ کتنی کٹھن اور کتنی صبر آزما ہوگی اس کا موجودہ ’’جنگجو‘‘ قیادتوں کو بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔ 
قافلہ ہٹنے لگا ہے اپنی منزل سے پرے
بے خبر ہے قافلہ سالار‘ الٰہی خیر ہو

ای پیپر-دی نیشن