• news

تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ، کسی کی جانب راغب نہیں ، وزارت دفاع نے موقف عدالت کو دیدیا : ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی(خبرنگار خصوصی) ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ افواج پر عزم ہیں، عوام کے تعاون سے ہر چیلنج پر قابو پا کر وطن کو امن کا گہواہ بنائیں گے۔ حکومت اور فوج میں آئینی تعلق ہے، اسے سیاسی رنگ دینا مناسب بات نہیں۔ الیکشن کے لئے فوج کی تعیناتی کے بارے میں وزارت دفاع نے زمینی حقائق کے مطابق اپنا جواب الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ میں پیش کر دیا۔ کسی بھی ملک میں آرمی کی جانب سے ایک سیاسی یا مذہبی گروہ کے خلاف کارروائی سے انتشار ہی پھیلتا ہے۔ بھارت اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستانی سیاست کی بات کرتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں، فوج کسی ایک جماعت کی طرف راغب نہیں۔ فوج کے خلاف مہم چلانے والے بعض لوگ دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ الیکشن ڈیوٹی کے لئے دستوں کی دستیابی کے حوالے سے وزارت دفاع نے اپنا موقف سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔ آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عوام ہی اصل طاقت ہیں۔ پاک فوج قومی فوج ہے، اس میں تمام مذاہب، مسالک اور نسلوں کی نمائندگی ہے۔ داخلی اور بارڈر سکیورٹی یقینی بنانے کے لئے مکمل طور پر فوکس ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے روزانہ 70 سے زائد آپریشنز کئے جا رہے ہیں۔ رواں برس 137 افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیز کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ تخریب کاری کے خلاف جنگ میں علمائ، میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا۔ معاشی حالات کے پیش نظر آرمی نے ہر قسم کے اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر قانون کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ کشمیر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا۔ بھارتی شرانگیزیوں سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ کسی کو شک ہے تو فروری 2019 سامنے ہے۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور حالیہ دہشتگردی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کا احاطہ کرنا تھا۔ پریس کانفرنس میں رواں سال کے دوران سکیورٹی اور دہشتگردی کے اہم معاملات پر روشنی ڈالی جائے گی ۔ پاک بھارت ڈی جی ایم او کے درمیان رابطے کے دوران سیز فائر لائن معاہدے کے بعدکی صورتحال بہتر رہی ہے ۔بھارتی لیڈر شپ کی گیدڑ بھبکیاں اور لائن آف کنٹرول پردراندازی، تکنیکی فضائی خلاف ورزیوں اور دیگر الزامات کا لگاتار جھوٹا پراپیگنڈہ ،بھارت کے ایک خاص سیاسی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے قائم کر دہ گروپ کے ساتھ ہمیشہ تعاون کیا، لائن آف کنٹرول پرمکمل رسائی دی گئی ہے، بھارت کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا، بین الاقوامی میڈیا، او آئی سی سیکرٹری جنرل سمیت 16 دورے کرائے گئے ہیں ۔ رواں سال بھارت کی جانب سےاب تک 56 مرتبہ چھوٹی سطح پر مختلف سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئیں ہیں جس میں 22 سپیکیولیٹو فائر، فضائی حدود کی 3خلاف ورزی ، فائر بندی کے 6 چھوٹے اورٹیکنیکل فضائی خلاف ورزیوں کے 25 واقعات شامل ہیں ۔ اسی عرصے میں پاک فوج نے 6 جاسوس کواڈ کاپٹرز کو بھی مار گرایا۔ افواجِ پاکستان بھارت کی ان تمام شر انگیزیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہمہ وقت تیار اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کیلئے پر عزم ہیں ۔ پچھلے کچھ عرسے سے دہشت گرد بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی کر رہے ہیں ، پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کیلئے ہم مکمل طور پر متوجہ ہیں ۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں دہشتگردی کے واقعات میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشتگردی کے436 واقعات رونما ہوئے جن میں 293 افراد شہید جبکہ521 زخمی ہوئے۔ خیبرپی کے میں 219 واقعات میں 192 افراد شہید جبکہ 330 زخمی ہوئے، بلوچستان میں 206 واقعات میں 80 افراد شہید جبکہ 170 زخمی ہوئے، پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 14 افراد شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔ رواں سال سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 8269 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے اس دوران لگ بھگ 1535 دہشتگردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا۔ خیبرپی کے میں 3591 آپریشنز کیے گئے اور 581 دہشت گردوں کو گرفتار اور 129 کو واصل جہنم کیا گیا، بلوچستان میں 4 ہزار 40 آپریشنز کے دوران 129 دہشت گردوں کو گرفتار اور 25 کو جہنم رسید کیا گیا، پنجاب میں 119 آپریشنز کیے گئے اور سندھ میں 519 آپریشنز کے دوران 398 دہشت گردوں کو گرفتار جبکہ 3 کو جہنم رسید کیا گیا۔ دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر 70سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔ الحمدللہ عوام اور افواجِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان میں کوئی نوگو ایریا نہیں ہے۔ مختلف علاقوں میں کچھ دہشت گرد سرگرم عمل ہے جن کی روزانہ کی بنیاد پر سرکوبی کی جارہی ہے۔ جو دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں ملوث دہشت گردوں، سہولت کار، منصوبہ سازوں کوگرفتار کیا گیا۔ پشاور میں مسجد میں دھماکہ اور کراچی واقعہ واضح کرتا ہے کہ ان دہشت گردوں کا ریاست پاکستان اور دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شواہد سے سامنے آیا کہ یہ دہشت گرد افغان تھا، مزید دہشت گردوں جن کی تربیت ہوئی تھی ان کو گرفتار کیا گیا، ان کی تربیت کنڈر، دوردانہ اور نولے میں ہوئی، حملہ آور کا تعلق قندوز سے تھا۔ حملے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لئے 75 لاکھ روپے فراہم کیے گئے ۔ دو حملے نمازی کم ہونے پر موخر جبکہ تیسری مرتبہ دھماکہ کرایا گیا۔ کراچی میں 17 فروری 2023 کو تینوں دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔ اس حملے کے تین ماسٹر مائنڈز کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتار دہشت گردوں سے خود کش جیکٹس، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ۔ رواں سال آپریشنز کے دوران 137 افسروں اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ117 افسرز اور جوان زخمی ہوئے۔ پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کی امن و سلامتی پر قربان کر دیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے فواجِ پاکستان، انٹیلی جنس ایجنسیاں ، قانون نافذ کرنے والے ادارے کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے باوجود پاک افواج کی دہشتگردی کے خلاف قربانیاں اور کامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،اگر پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو جس طرح پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور لڑ رہے ہیں، اس کا نہ صرف دنیا نے اعتراف کیا ہے بلکہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے بتایا کہ بارڈر مینجمنٹ کے تحت 2611 کلومیٹر پاک افغان سرحد پر98 فیصد سے زائد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ جبکہ پاک ایران بارڈر پر85 فیصدسے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔ پاک -افغان بارڈر پر دہشتگردوں کی نقل و حرکت کی روک تھام کیلئے 85 فیصد قلعے مکمل کئے جا چکے ہیں جبکہ پاک ایران بارڈر پر 33فیصد قلعے مکمل ہو چکے ہیں اور باقی قلعوں پر کام تیزی سے جاری ہے، اب تک 3141 کلومیٹر کا ایریا فینس کر دیا گیا ہے، اس کا مقصد دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنا ہے۔ اس قومی منصوبے کی تکمیل کے لیے پاک افواج کے کئی جوانوں نے اپنی جانیں بھی قربان کیں مگر امن کے دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ایک مصمم کوشش کے ذریعے قبائلی علاقوں میں 65 فیصد علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے 98 ہزار سے زائد بارودی سرنگیں، بارودی مواد برآمد کر کے بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا گیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں علماءکرام اور میڈیا نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے جو کہ قابلِ ستائش ہے۔ ٹی ٹی پی کے جھوٹے بیانیے کو جو کہ بیرونی ایما پرقائم کیا جا رہا ہے وہ بھی علماءکرام، میڈیا اور آپ لوگوں کی مدد سے رد کر دیا ہے۔ قانون کی بالادستی اور پاسداری سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سماجی اقتصادی حکمت عملی ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے جہاں پر سکیورٹی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ریکوڈک منصوبہ صوبے کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ حال ہی میں آرمی چیف نے فوج کے بجٹ سے گوادر میں فلاحی منصوبوں کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے دوست ممالک ترکیہ اور شام میں زلزلہ متاثرین کی امداد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس وقت بھی یہ مدد جاری ہے۔ طور خم لینڈ سلائیڈ، قراقرم ہائی وے بندش پر افواج پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔ پاکستان آرمی نے موجودہ معاشی حالات کے پیشِ نظر اپنے آپریشنل اور خصوصا غیر آپریشنل اخراجات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ معیشت کی بہتری کے لئے ہر قسم کے اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔ اس سلسلے میں پٹرولیم، راشن، تعمیرات، غیر آپریشنل پروکیورمنٹ، ٹریننگ اور غیر آپریشنل نقل و حرکت میں کمی کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے سمولیٹر ٹریننگ اور آن لائن میٹنگز کے انعقاد کو بڑھا یا جا رہا ہے تاکہ اس مد میں بھی اخراجات کو کم کیا جا سکے ۔ 2دہائیوں کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس دہشتگردی کی جنگ کا بحیثیت قوم یکجا ہو کر بہادری سے مقابلہ کیا ہے اور کر ر ہے ہیں ،ہمارا یہ سفر قربانیوں اور لازوال حوصلوں کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشتگردی کے افریت کا کامیاب حکمت عملی اور قومی اتحاد سے بھرپور سامنا کیا ہے اور انشااللہ اسکے دائمی خاتمے تک یہ جدو جہد جاری رہے گی۔ہم سب کو پاکستان کو ایک خوشحال، پر امن اور محفوظ ملک بنانے کیلئے اپنا اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کرتے رہنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ دو دہائیوں پر محیط سفر ہے، ایک وقت یہ بھی تھا کہ ہمارے درمیان اس معاشرے میں ایک الجھن تھی کہ مسلمان ،مسلمان کے خلاف لڑ رہا ہے ،یہ بنانیے کی الجھن تھی ۔ وہ وقت بھی تھا کہ بڑے شہروں میں آئے روز دھماکے ہوا کرتے تھے، ہم نے جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے یہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس سفر کی 4 جزویات تھیں کائنیٹک آپریشز میں افواج جاکر دہشت گردوں کا ختم کر کے انتظامی ، معاشرتی ڈھانچے ، سماجی ترقی کو یقینی بنائے جاتے ہیں، دہشت گردی کے محرکات کا تدراک کر کے انتظامات سول انتظامیہ کے حوالے کر کے فوج باہر نکل آتی ہے، بھارت کے جارحانہ عزائم اور بے بنیاد الزامات اور دعوی تاریخ کے اوراق کو نہیں بدل سکتے ، کشمیر کی عالمی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو نہیں بدل سکتے ، کشمیر نا کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور نہ رہے گا ، آرمی چیف نے کمان سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ لائن آف کنٹرول کا کیا اور واضح کیا کہ پاک فوج ملک کے چپہ چپہ کا دفاع کرنا جانتی ہے، اگر کوئی مہم جوئی کا حوصلہ کرتا ہے تو افواج پاکستان اسکا بھر پور جواب دے گی ۔ فروری 2019 میں ہندوستان نے مکمل منصوبہ بندی کر کے پلوامہ واقعہ کیا ،جب وہ آئے تو پاکستان کی آپریشنل تیاریوں سے دنیا گواہ بن چکی ہے ، بھارت کے پروپیگنڈا پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپریشنل تیاریوں میں کمی ہے ایسا کچھ نہیں ہے، فی کس خرچہ پہلے بھی بھارتی فوج کا زیادہ تھا لیکن ہمارا دفاع مضبوط ہے، ہم شہادت کو آگے بڑھ کر گلے لگاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی رائے کا حق رکھتا ہے۔ آرمی چیف سید عاصم منیر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اصل طاقت کا محور و مرکز پاکستان کے عوام ہے ، پاک فوج ایک قومی فوج ہے، ہمارے لئے تمام سیاستدان اور جماعتیں قابل احترام ہیں ، کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ فوج خاص سیاسی سوچے ، نظریئے کی جانب راغب ہو، جس طرح افواج پاکستان میں ہر مسلک، ہر علاقے اور پورے پاکستان کی نمائندگی ہے اس طرح خاص سوچ نہیں رکھتے ۔ آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی رائے کا حق دیتا ہے لیکن چند حدود و قیود ہیں۔ افواج پاکستان اور اداروں کے خلاف بات چیت نہ صرف غیر ذمہ دارانہ بلکہ غیر آئینی ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ اس کے پیچھے کچھ ذاتی اور سیاسی مقاصد ہیں، ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے، ہمارا نظم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر الزام کا جواب دیں، عوام بھی یہ نہیں چاہے گی کہ افواج ایک لاحاصل بحث میں پڑجائے، اپنی توجہ اصل مقصد سے ہٹا کر ان امور پر توجہ دے۔ بھارت کی اندرونی سیاست میں پاکستان کی سیاست اور حالات کی ایک اہمیت ہے، ان کے اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے بارے میں ڈس انفارمیشن مہم چلاتے رہتے ہیں، ڈس انفولیب معاملہ دنیا کے سامنے ہے۔ فاکس فلیگ آپریشن، پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہندوستان کا شیوہ رہا ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ عناصر ملک میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اس وقت کی حکومت کا فیصلہ تھا جس کا اعتراف بھی کیا گیا۔ دہشت گرد تنظیموں او ر سہولت کاروں کا کوئی نظریہ، مذہب، ایمان نہیں ہے بلاتفریق سب کو نشانہ بناتے ہیں ، پاکستان کی پولیس کی بیش بہا قربانیاں ہیں، جواں مردی سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور کرتے رہتے ہیں۔ پاک فوج کے پی پولیس کی استعداد کار بڑھانے، انٹیلی جنس شیئرنگ اور جوائنٹ آپریشن میں ساتھ دیتے رہیں گے ۔ پاک فوج کے ریٹارئرڈ افسران اور جوان ہمارا اثاثہ ہیں، افواج پاکستان کے لئے ان کی بیش بہا قربانیاں ہیں، ان کی فلاح و بہبود کے لئے مربوط طریقہ موجود ہے ، سابق فوجیوں کی تنظیموں کا بنیاد مقصد مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا یہ سیاسی یا کمرشل تنظیمیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان کو ہونا چاہیے ۔ سابق فوجی ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ کو پاکستان کے قانون سے استثنی ہے ، سابق فوجیوں کی تنظیموں کو سیاست کا لبادہ نہیں اوڑھنا چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے تمام سیاسی قیادت اور جماعتیں قابل احترام ہیں ، پاک فوج غیر سیاسی ادارہ ہے ،اس کے پیچھے ایک منطق ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ،اگر فوج کو خاص وجہ سے لئے استعمال کیا گیا ہے وہاں انتشار پھیلایا گیا ہے ، پاک فوج اور عوام نہیں چاہیں گے کہ افواج پاکستان کسی سیاسی جماعت کی طرف راغب ہو، افواج پاکستان کی الیکشن کے لئے 245 کے تحت تعیناتی کی جاتی ہے، 31 دسمبر 2022 آرمی چیف نے کراچی میں بات کی تھی کہ چیلنجزسے نبردآزما ہونے کے لئے سٹیک ہولڈرز اتفاق رائے پیدا کریں ۔کبل میں افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس پر آئی جی کے پی کے نے مفصل بریفنگ دی ہے، یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے اس واقعہ کے بعد ہماری ٹیمیں فوری طور پر وہاں پہنچ گئیں ، یہ عمل ابھی جاری ہے ۔ فوڈ سکیورٹی پاکستان کے لئے ایک چیلنج ہے ، باقی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ان کی حکومتوں نے افواج پاکستان کو زراعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا ۔ پاک فوج کیسے زراعت کو بہتر بنا سکتی ہے اسکا فیصلہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے کرنا ہے ۔ سی پیک سکیورٹی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چینی بھائیوں کی سکیورٹی ہماری اولین ترجیح ہے ، پاک فوج کے لئے یہ حساس او راہم معاملہ ہے، سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، نان سی پیک منصوبوں کے لئے وزیراعظم نے ایپکس کمیٹی کے ذریعے سکیورٹی آڈٹ کیا ہے اس میں کمی کو پورا کیا جارہا ہے ۔ پاک افغان سرحد پر باڑ تنصیب کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے، اس باڑ سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت محدود ہو چکی ہے، کسی بھی دو ممالک کے درمیان سرحد کو مکمل طور پر سیل کرنا ناممکن ہوتا ہے ، 2611 کلومیٹر پاک افغان بارڑ انتہائی دشوار گذار علاقوں پر مشتمل ہے ، 50 لاکھ افغان پاکستان میں موجود ہیں ، یومیہ نامزد کراسنگ مقامات سے لوگ، گاڑیاں آتی جاتیں ہیں ، متعلقہ ادارے میکنزم کو مزید موثر بنارہے ہیں ، سرحد کی منیجمنٹ ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے ، پاکستان کی طرف سے موثر کام ہورہا ہے، افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بھی میکنزم بہتر کرنے کے لئے بات چیت ہورہی ہے۔ انٹیلی جنس آپریشن کی تفصیلات اور پکڑے جانے والے جاسوسوں سے متعلق معلومات وزارت خارجہ ہی دے سکتی ہے۔ پاک فوج سے متعلق خبر کے لئے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر توجہ دی جائے تو میڈیا اضطرابی سوالات کی طرف نہیں جائے گا۔ پاک فوج کے چین کی فوج کے ساتھ دیرینہ، روایتی اور پیشہ ورانہ تعلقات ہیں۔ آرمی چیف کا حالیہ دورہ چین بھی اسی تناظر میں ہے ۔

ای پیپر-دی نیشن