• news

پاک فوج کی بنیاد

جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو انگریزوں اور ہندو لیڈروں کی یہ پختہ رائے تھی کہ برصغیر کی فوج کو تقسیم نہ کیا جائے اور ہندوستان و پاکستان کے دفاع کو مشترکہ کنٹرول میں ہی رکھا جائے - قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی لیڈروں نے اس آئیڈیا کی شدید مخالفت کی-پاک آرمی بھی برٹش انڈین آرمی کا حصہ تھی جس کی اعلیٰ معیار کی پروفیشنل ٹریننگ کی گئی تھی- مرکزی عسکری قیادت کے ساتھ لازوال اعتماد اس ٹریننگ کا حصہ تھا- برطانوی انڈین آرمی کنٹونمنٹس کو مکمل یونٹ بنایا گیا تھا جس میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی- فوجی چھاؤنیوں کو سول آبادیوں سے علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ فوج کے جوان اور آفیسر فرقہ واریت برادری ازم لسانی اور نسلی تعصب سے محفوظ رہیں- انڈین آرمی نے دو عالمی جنگوں کے دوران قابل رشک کردار ادا کیا - اس وقت فوج کی تعداد 4 لاکھ تھی- ہندوستان کی آزادی کے وقت برطانیہ کی یہ خواہش تھی کہ انڈین آرمی کا کنٹرول اور کمانڈ اس کے پاس رہے مگر ہندوستان اور پاکستان کے لیڈروں نے یہ شرط قبول نہ کی-برطانیہ کا یہ خیال تھا کہ اگر ہندوستانی فوج اس کے کنٹرول میں رہے تو وہ روس کے جنوبی ایشیا میں اثرورسوخ کو محدود رکھ سکتا ہے - برطانیہ نے آزادی کے بعد کچھ عرصہ ہندوستان کی فوج کا کنٹرول اپنے پاس رکھا- برطانوی فوجی آفیسر چند ماہ ہندوستان اور پاکستان کی فوج میں شامل رہے-سر کلاؤڈ اکن لک ہندوستان اور پاکستان فوج کے چیف سپریم کمانڈر تھے-انڈین آرمی کے کچھ آفیسر بھی فوج کی تقسیم کے خلاف تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کا کنٹرول مشترکہ آرمی کے پاس رہے-
ہندوستان کی آزادی کے وقت آغا محمد یحییٰ فوج میں میجر تھے- مستند شہادتوں کے مطابق انہوں نے کوئٹہ میں الوداعی تقریب میں کہا کہ آج ہمارے لئے خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ سوگ کا دن ہے اگر ہندوستان اور پاکستان کی افواج متحد رہتیں تو بہتر ہوتا- تقسیم کے بعد دونوں افواج آپس میں لڑیں گی- ہندو اور سکھ فوجی افسروں نے مسلمان فوجیوں کے اعزاز میں دہلی میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا- اس تقریب میں ایک دوسرے کے لیے دوستانہ اور خوشگوار جزبات کا اظہار کیا گیا اور ایک دوسرے سے ملاقاتیں جاری رکھنے کا عہد کیا گیا-اس خوشگوار تقریب کے تین روز بعد جب پاکستانی فوجی افسر دہلی سے لاہور کی جانب روانہ ہوئے تو سکھوں نے الوداعی تقریب میں شریک ہونے والے چار فوجی افسروں اور ان کے خاندانوں کو قتل کر دیا-برطانوی ہندوستانی فوج کی تقسیم کے سلسلے میں یہ اصول طے پایا کہ جو علاقے پاکستان میں شامل ہوئے ہیں ان کا ڈومیسائل رکھنے والے فوجی افسروں کو پاک فوج میں شامل کیا جائے گا اور جو علاقے ہندوستان میں شامل رہیں گے وہاں کے ڈومیسائل رکھنے والے فوجی ہندوستانی فوج میں شامل رہیں گے- ہندوستان اور پاکستان کے علاقوں میں رہنے والے غیر مسلم اور غیر ہندو فوجی افسروں کو یہ آپشن دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس فوج کا حصہ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں جو اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا اسے ریٹائر کر دیا جائے گا- عسکری اثاثوں کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی گئی-
فوج کی تقسیم کا فارمولہ ہندوستانی فوج میں مسلم نان مسلم اور ہندوستان اور پاکستان کی آبادی کے تناسب سے طے پایا - بری فوج کو 70 اور 30 فیصد بحریہ کو 60 اور 40 فیصد اور فضائیہ کو 80 اور 20 کے تناسب سے تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا - ہندوستان کا سمندری ساحل چونکہ زیادہ تھا لہٰذا اس کا بحری فوج کا حصہ زیادہ کر دیا گیا- فوج کے فکسڈ اثاثے کنٹونمنٹ ورکشاپ اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اسلحہ کی فیکٹریاں ہندوستان میں زیادہ تھیںلہٰذا پاکستان کو نقصان برداشت کرنا پڑا - مثال کے طور پر ٹرینگ انسٹیٹیوٹ 46ہندوستان اور 7 پاکستان کے حصے میں آئیں۔ برطانوی انڈین آرمی میں سے ایک لاکھ پچاس ہزار فوج پاکستان کے حصے میں آئی جس میں 13500 فوجی برطانوی تھے-ہندوستان کو دہلی میں آرمی کا فنکشنل جی ایچ کیو ملا جبکہ اس کا مرکزی کیپیٹل بھی دہلی میں تھا- پاکستان کا مرکزی کیپیٹل کراچی میں تھا جبکہ جی ایچ کیو راولپنڈی میں بنانا پڑا- عسکری اثاثوں کی منصفانہ تقسیم میں ہندوستانی لیڈروں نے بڑی رکاوٹیں ڈالیں - آرمی کے سپریم کمانڈر جنرل اکن لیک نے اپنے ایک نوٹ میں تحریر کیا- میں بڑے وثوق کے ساتھ یہ تحریر کرتا ہوں کہ انڈیا کی کابینہ سول اور ملٹری بیوروکریسی منصوبہ بندی کے تحت فوجی اثاثوں کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے اور نہیں چاہتی کہ پاکستان کو اس کا حصہ مل سکے اور وہ مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے- مشکلات کے باوجود پاک فوج 1947 میں وجود میں آگئی جس کے پہلے آرمی چیف فرینک میسروی تھے- پاک فوج نے ڈسپلن پروفیشنل ازم چین آف کمانڈ اور فیتھ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم بنایا - آج پاک فوج کا شمار دنیا کی آٹھ بڑی افواج میں ہوتا ہے- پاک فوج کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جاہ پرست مہم جویانہ پالیسیوں کی وجہ سے پاک فوج کے اندرونی امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے - پاکستان کے نوجوانوں کے ذہنوں میں فوج کے خلاف زہر بھر دیا گیا ہے- موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عوام کے اعتماد کو کیسے بحال کیا جائے - پاک فوج کو سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے پڑیں گے جن سے عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کیا جاسکے - وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ سلامتی اور دفاع کے ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی خطرناک مہم کا موثر جواب دینے کے لیے خصوصی سیل تشکیل دے- فوج کے بغیر ریاست کی آزادی کا تحفظ ممکن نہیں ہے- مضبوط سویلین ادارے اور مضبوط فوج باہمی اشتراک سے ہی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے ضامن بن سکتی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن