• news

عید اور الیکشن کا چاند

عید کا تہوار بھی گزر گیا مگر ابھی اس کے اثرات باقی ہیں حکومت نے اس مرتبہ چھٹیاں بھی خاصی فراخدلی سے دی تھیں سو وہ بھی ختم شد یوں عوام نے خالی جیبوں اور مہنگائی کے اثرات سے لطف اندوز ہوتے عید جی بھر کے منائی اور بہت سوں نے تو میٹھی نیند کے مزے لئے جب سے ہمارے ملک میں اکثر وبیشتر معاملات متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے ہیں چاند کا معاملہ بھی ہر عید پر خاصا پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے کبھی روزوں کیلئے رات گئے چاند دکھایا جاتا ہے اور کبھی عید اپنے حساب سے منانے کیلئے سعودیہ کے اعلان سے پہلے ہی چاند نظر نہ آنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے اور بہت سے معاملات کی طرح چاند کو بھی کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ چھتوں اور دالانوں میں بھی چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے اور ان کی ساری توجہ رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر مرکوز رہتی ہے۔ کچھ منچلے دوسری چھتوں اور کھڑکیوں کے چاند دیکھ کر چاند رات منانے کی روایت پر اب بھی قائم ہیں لیکن ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ عید کے تہوار سے قبل عوام کو پٹرول کے تحفے سے نوازا گیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے مہنگائی نے بھی رمضان کے مبارک مہینے میں آسمان سے باتیں کی ہیں اور بہت سوں نے نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ مال و منال کمانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
ایک وقت تھا کہ تہوار بہت عقیدت و احترام ، اہتمام ، خلوص اور خوشی کے جذبے کے ساتھ منائے جاتے تھے کہیں بچوں کے شور شرابے کی آوازیں سنائی دیتیں تو کہیں نقرئی قہقے گونجتے اب کمر توڑ مہنگائی نے ان تہواروں کی رونقوں کو ماند کر کے رکھ دیا ہے۔ کہنے کو تو عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے جس کے لیے سویوں کا خاص اہتمام ہوتا ہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اب اس عید کے رنگ بھی پھیکے پڑتے جا رہے ہیں اب نمکین پکوان بھی میٹھی عید کے مینو میں شامل ہوگئے ہیں یوں بھی روایتی اور گھریلو کھانوں اور پکوانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ نے لے لی ہے ان روایتی پکوانوں کی بجائے پیزا اور برگر کو ترجیح دی جاتی ہے اور گھریلو پکوانوں کی بھی مہک کی بجائے آرڈر اور ہوٹلنگ کا رواج عام ہو رہا ہے۔ غریب عوام کیلئے تو اب ان تہواروں میں کوئی کشش نہیں رہ گئی کہ ان کے سارے کس بل مہنگائی کے جن نے نکال دیئے ہیں البتہ اشرافیہ کے لیے ہر دن عید اور ہر رات شب برات کا درجہ رکھتی ہے اس لیے انہیں عام آدمی کے جذبات اور احساسات کا کوئی پاس اور خیال نہیں نہیں ہے عید کی چھٹیوں سے قبل عدلیہ نے سیاست دانوں کو افہام و تفہیم اور الیکشن کے معاملات سلجھانے کا جو ٹاسک دیا ہے بظاہر تو ان میں کوئی خاص پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی سیاست دان بسمل کو بسمل اور بنانے کیلئے نئے نئے گر استعمال کر رہے ہیں جبکہ حکومتی ترجمانوں کا لب و لہجہ بھی جلتی پر تیل ڈالنے والا ہے امن و امان کے قیام میں حکومت ناکام ہے اور وزرا کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے بڑھکیں مارتے نظر آ رہے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ ملک کے اہم اداروں کے وقار اور تقدس کا خیال رکھا جائے۔ ہر ادارہ آئینی لحاظ سے اپنی حدود اور اختیارات کی پاسداری کرے تو ہمارے ملک کے بہت سے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں جمہوریت کا مقصداور مفہوم عوام کی حکومت عوام کیلئے ہوتا ہے لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ حکومت کا مقصد محض حکومت کا حکومت کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ملک کی 23 کروڑ عوام کی نظریں چند مخصوص افراد کی طرف لگی رہتی ہیں ملکی مسائل اور معاملات اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب ہر ادارے کی اہمیت تسلیم کی جائے اور آئین کی حاکمیت برقرار رہے۔
رمضان المبارک میں غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی میں ہونے والی اموات بھی ہمارے ملک کے معاشی حالات اور عدم استحکام کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کو کنٹرول کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی اور نا اہلی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور قانون شکنی کی بھی حوصلہ شکنی نہیں ہو پا رہی ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور بے روزگاری ہماری حکومت اور سیاسی جماعتوں کیلئے چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے حکومت اور اپوزیشن اپنے منشور میں ان مسائل کا کوئی حل پیش کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔ سردست تو عوام عید جیسے تہواروں کو بھی ٹھیک سے نہیں منا سکتے۔ اب لوگ بچپن کی عیدوں کو ہی یاد کر رہے ہیں۔ میٹھی عید کے رنگ بھی پھیکے پڑتے جا رہے ہیں اور ان تہوارں میں وہ پہلے جیسی رنگینیاں نظر نہیں آتیں۔
نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
زرق برق لباس مہندی کی مہک اور چوڑیوں کی کھنک بھی مہنگائی کی نذر ہو رہی ہے۔ مہنگے پٹرول نے بچوں کے سیر سپاٹوں کے شوق کو بھی محدود کر دیا ہے اور اب تو تہوار کو اس کی اصلیت کے مطابق منانے کیلئے چاند بھی ہرجائی ہو چکا ہے۔ زیست کی بڑھتی ہوئی تلخیوں میں اب چاند کی چاندنی بھی ماند پڑ گئی ہے۔
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
اب دیکھتے ہیں کہ عید کے چاند کے بعد الیکشن کا چاند کیسے چڑھایا جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ عید کے چاند کی طرح الیکشن کا چاند بھی کہیں بدلیوں میں چھپ جائے اور اسے ڈھونڈنے والے سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن