• news

بدھ ‘ 5 شوال 1444ھ‘ 26 اپریل 2023ء

جرمن سفیر کی ٹوپی اور قمیض شلوار پہن کر پاکستانیوں کو عید کی مبارکباد 
جرمن سفیر نے مکمل پاکستانی لباس یعنی قمیض لباس پہن کر‘ سر پر ٹوپی رکھ کر جس طرح پاکستانیوں کو عید کی مبارک باد دی ہے‘ اس نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ ایک اچھا سفارتکار وہی ہوتا ہے جو اس علاقے کے رسم و رواج اور لوگوں کے بارے میں بخوبی علم رکھتا ہو۔ اس طرح یگانگت اور میل جول ہی نہیں‘ سیاسی و سفارتی تعلقات میں بھی بہتری آتی ہے۔ امریکی سفارت خانے والے بھی اس معاملہ میں کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کا قومی لباس پہن کر عوامی تقریبات میں شرکت کریں۔ بہت سے دیگر مغربی ممالک کے سفیر بھی پاکستان کے قومی لباس کے علاوہ قومی زبان اردو میں دعا سلام کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے بین المذاہب اور بین الاقوامی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور مختلف ممالک کے لوگ اور مذاہب کے ماننے والے قریب آتے ہیں اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ یورپی سفارتکار اس سلسلہ میں خاصے فعال ہیں مگر بازی ہمیشہ جرمن سفارت کار لے جاتے ہیں۔ کبھی سائیکل پر‘ کبھی رکشہ میں گھومتے پھرتے سڑکوں پر کھاتے پیتے خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر ہمارے دشمنوں نے پھیلایا ہوا ہے اس کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ عید پر جرمن سفیر الفریڈ گرانس نے کپڑے کی خریداری سے لے کر درزی سے سلوانے تک کی اپنی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے عید پر یہ لباس پہن کر پاکستانیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی ہے۔ اس موقعہ پر اہل پاکستان کی خوشی دیدنی تھی۔ 
٭٭٭٭٭
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹونٹی سیریز 2-2 سے برابر 
سیریز کے آخری میچ میں نیوزی لینڈ نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کر کے یہ میچ جیت کر سیریز برابر کر دی۔ اب تو لگتا ہے چوتھے میچ میں بارش کی انٹری ہمارے لئے باعث رحمت ہی رہی۔ ورنہ اگر وہ میچ بھی کیویز جیت جاتے تو ہمارے شاہینوں کو لوگ غصہ میں آ کر گِدھ قرار دینے میں ذرا بھر بھی پس و پیش نہ کرتے۔ ہم ویسے ہی جذباتی قوم ہیں۔ ایک غلطی پر ہم ننانوے نیکیاں فراموش کر دیتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ کھیل کھیل ہی ہوتا ہے۔ ہار جیت اس کا لازمی حصہ ہے۔ شکر ہے برابری کی بنیاد پر بھی بہت سے مقابلے خیر و عافیت سے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں آج تک کوئی بڑا دنگا فساد نہیں ہوا۔ کھلاڑیوں کے درمیان یا پھر زیادہ سے زیادہ شائقین اور کھلاڑیوں میں تکرار یا حد سے حد بدزبانی یا خالی بوتل یاکیلے کے چھلکے پھینکنے تک ہی بات محدود رہتی ہے۔ مگر اس کی نسبت فٹبال کے میدان میں تو باقاعدہ جنگ لڑی جاتی ہے۔ بے شمار لوگ ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو کرکٹ خاصہ پرامن کھیل ہے۔ بہرحال گزشتہ روز کے آخری میچ میں بھی ہمارے بہت سے بڑے بڑے کھلاڑی وہ رنگ نہ دکھا سکے جس کی اْمید تھی۔ نجانے کیوں لگتا ہے کہ انہیں چلتے چلتے اچانک بریک سی لگ جاتی ہے۔ اِدھر شائقین کا یہ حال ہوتا ہے بقول شاعر 
’’ہماری جان جاتی ہے تمہارا کھیل ہوتا ہے‘‘ 
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہیرو یا کھلاڑی سْپرمین ہیں جو ہر وقت جو چاہے کر سکتے ہیں مگر یاد رکھیں کھیل میں ہار جیت کو قبول کرنے والے ہی بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭
آئندہ حکومت ہماری اور وزیر اعظم بلاول ہونگے۔ آصف زرداری 
خواہش رکھنے اور بات کرنے میں کیا ہرج ہے۔ سب کو حق ہے کہ وہ تاج و تخت کا خواب دیکھے۔ بس وسائل ہونا ضروری ہیں۔ ورنہ ہر ایک اگر بادشاہ بن جانے کی خواہش پر دعا پربادشاہ بننے لگا تو سوچ لیں ہمارے ملک عزیز میں 23 کروڑ لوگ (جدید مردم شماری کے مطابق) بادشاہ بننے نکل پڑیں گے تو گلی اور سڑکوں پر کیسی گھمسان کی جنگ ہو گی۔ ابھی تک تو فی الحال یہ 10 یا 12 سیاسی رہنماہم سے نہیں سنبھالے جاتے۔ ہر ایک خود کو وزیر اعظم سمجھتا ہے‘ چاہے خیالوں میں ہی سہی۔ بقول چچا غالب 
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے 
اب عمر رفتہ کے اس موڑ پر سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے حقیقی چیئرمین آصف علی زرداری نے گزشتہ روز کھل کر ایک تقریب میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے یہ بھی کہا ہے کہ میرے بعد وہ بلاول اور آصفہ کا ساتھ دیں۔ سندھ کی حد تک بلاشبہ پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اگرچہ بہت سی نوخیز اور پرانی جماعتیں بھی قدم جمائے ہوئے ہیں۔ مگر پنجاب میں طاقت ور پوزیشن میں آنے کے لیے خیبر پی کے اور بلوچستان میں قدم جمانے کے لیے ابھی آصف علی زرداری اور بلاول کو بہت کچھ کرنا ہو گا۔ ہاتھ سے نکلا ہوا پنجاب حکم کا یکہ کہہ لیں یا ترپ کا پتہ ہے۔ جب تک یہ ہاتھ نہیں آتا‘ وزارت عظمیٰ کا خواب ادھورا رہے گا۔ ہاں اگر اتحادی جماعتیں مرکز میں حکومت بناتی ہیں تو شاید یہ ایسا ممکن ہو مگر دیکھ لیں یہاں بھی تخت پنجاب کی اہمیت برقرار رہے۔ ہاں کوئی کرامت ظہور پذیر ہو اور غیبی مدد آ جائے تو الگ بات ہے۔ یا پھر غریبوں، محروم طبقات کا دل جیت کر ذاتی خزانے کا منہ کھول کر اگر عوام کو خوش کیا جاتا ہے‘ ریلیف دیا جاتا ہے تو ایسا ممکن ہے ورنہ غریبوں کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہا کر تو سب تخت حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭
27 اپریل سے حکومت کی اْلٹی گنتی شروع ہے۔ شیخ رشید 
کم از کم اب تو شیخ رشید کو چاہیے کہ وہ اپنی اْلٹی سیدھی پشین گوئیوں کا سلسلہ بند کر دیں۔ اب عوام کو تو کیا خود ان کے اتحادی بھی ان کی بونگیوں پر یقین نہیں کرتے۔ اسی لیے وہ ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ گزشتہ ایک برس سے وہ ہر روز  ’’حکومت کا آج آخری دن یا آخری ماہ ہے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مگر دیکھ لیں ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا شیخ جی چاہتے تھے۔ اب بھی وہ یونہی گلیوں میں میدانوں میں ٹلیاں بجانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی کوئی نہیں سْن رہا۔ تمام تر سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود وہی…
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے 
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے 
والی حالت ہے۔ اب تو پانچ نمبر گیٹ والے بھی کوئی لفٹ نہیں کرا رہے۔ ان کے سیاسی قائد بھی شاید اب ان کی گھسی پٹی باتوں اور پوری نہ ہونے والی پشین گوئیوں سے اب زیادہ متاثر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ بہرحال کام تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ سو شیخ جی وہی کر رہے ہیں۔ اپنے کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں سو اس پر تو وہی۔ ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کیا کم ہے ان کی اتحادی جماعت کے کارکن اور میڈیا والے ابھی تک ان کے بیانات کو چسکا لے لے کر آگے بڑھاتے اور پھیلاتے ہیں۔ وہ آج اگر شیخ جی کو چھوڑ دیں تو شاید زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ شیخ رشید کو عوام کے حافظے سے محو ہونے میں۔ بس لال حویلی ان کی سیاسی و زندگی کی تنہائی کی داستان بیان کرتی نظر آئے گی۔ 

ای پیپر-دی نیشن