کبل میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے تھانے میں دھماکے
دہشت گردی کا عفریت پاکستان میں ایک بار پھر سے بے قابو ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ کالعدم تنظیمیں پھر سرگرم ہورہی ہیں۔ ایسے واقعات پر قابو پانے کے لیے ہی انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ (سی ٹی ڈی) قائم کیا گیا جس کا بنیادی کام دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ اسی وجہ سے یہ محکمہ دہشت گردوں کی آنکھوں میں مسلسل کھٹکتا رہتا ہے اور دہشت گرد عناصر اس محکمے کے خلاف کارروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ عید کے تیسرے روز سوات کی تحصیل کبل میں اس محکمے کے تھانے میں دو دھماکوں سے کم از کم 12اہلکار شہید اور 53 زخمی ہوگئے۔ دھماکوں سے قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور تھانے کی عمارت میں آگ بھی لگ گئی۔ بتایا گیا ہے کہ دھماکے کے فوری بعد شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اہلکار امدادی سرگرمیوں کے لیے جائے حادثہ پہنچ گئے اور سیدوشریف اور کبل سمیت دیگر ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ دھماکوں سے سی ٹی ڈی تھانہ کبل کی عمارت کا ایک حصہ مکمل طورپر تباہ ہو گیا۔
ایسے واقعات میں دہشت گرد عناصر کے ملوث ہونے کے امکان کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جاسکتا اسی لیے واقعے کے بعد سوات پولیس کی جانب سے ضلع بھر میں ہائی الرٹ کے احکاما ت جاری کیے گئے اور تمام داخلی اور خارجی راستوں پر سخت چیکنگ کی جارہی ہے۔ سی ٹی ڈی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دھماکوں کی اصل وجہ کا تعین کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی خالد سہیل نے کہا ہے کہ تھانے میں اسلحہ اور مارٹر گولے بھی موجود تھے، ممکن ہے مارٹر گولے پھٹنے سے دھماکے ہوئے ہوں۔ انھوں نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ دھماکہ خودکش بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر خودکش حملہ آور گیٹ پر ہی خود کو اڑا دیتا ہے مگر اس واقعے میں تھانے کے گیٹ پر دھماکہ نہیں ہوا۔جس تھانے میں یہ واقعہ پیش آیا اس کی عمارت پرانی تھی اور دھماکوں کے وقت بیشتر اہلکار بھی عمارت میں موجود تھے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے سی ٹی ڈی تھانہ میں دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے جاری بیان میں واقعے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا اور انھیں ہر ممکن طبی امداد دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعظم کے بیان میں مزید کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے بھی ان دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے عفریت پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔
کبل میں ہونے والے دھماکوں کے علاوہ لکی مروت میں بھی ایک اہم واقعہ پیش آیا جہاں سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائی کے دوران دو خودکش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ ایک دہشت گرد فائرنگ میں مارا گیا۔ یہ کارروائی لکی مروت کے نواحی گاؤں پہاڑ خیل تھل میں کی گئی جس میں سی ٹی ڈی اور مقامی پولیس کے اہلکار شامل تھے۔ کارروائی کے دوران سی ٹی ڈی کے دو اہلکار زخمی ہوئے۔ لکی مروت ہی کے علاقے میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے ایک ریٹائرڈ کرنل جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والے کرنل مقرب خان تین ماہ پہلے پاک آرمی ایوی ایشن سے ریٹائر ہوئے۔ وہ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو میں کئی اہم عہدوں پر فرائض انجام دے چکے تھے۔ اسلام آ باد کے رہائشی تھے اور عید منانے اپنے آبائی علاقے میں آئے ہوئے تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام، سیاسی، سماجی شخصیات اور عسکری افسروں نے بھی شرکت کی۔
پاکستان کو اس وقت جو نہایت سنجیدہ اور حساس مسائل درپیش ہیں دہشت گردی ان میں سے ایک ہے۔ ماضی قریب میں دہشت گردی کے واقعات پر پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے اپنی قربانیوں سے قابو پا لیا تھا تاہم اب ایک بار پھر دہشت گرد تنظیمیں بے قابو ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تیزی کی ایک وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر جانا ہے جس کے بعد وہاں جیلوں میں بند دہشت گرد آزاد ہوگئے اور اب وہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں مختلف قسم کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سکیورٹی ادارے ہمہ وقت اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں تاہم ملک کی معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دہشت گرد عناصر پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس وقت سیاسی قیادت کو جہاں دیگر معاملات پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے وہیں انھیں چاہیے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک مشترکہ پالیسی کا اعلان کریں۔