موسمیاتی تبدیلیاں ، ایشیائی ممالک کی زرعی پیداوار کو شدید خطرات لاحق
لاہور(کامرس رپورٹر)وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر اور کرغزستان ٹریڈ ہاﺅس کے چیئرمین مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ غذائی عدم تحفظ والے خطوں بالخصوص ایشیائی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ منگل کو یہاں فاران شاہد کی قیادت میں صنعتکاروں اور تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف موسمی حالات، خشک سالی، گرمی کی لہر، بے ترتیب، غیر متوقع اور شدید بارشوں، طوفانوں، سیلاب اور بڑھتے ہوئے حشرات الارض نے عوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ اور زیادہ شدت کے ساتھ بے ترتیب بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وسط صدی، 2040 سے2069 تک یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں 2.8 سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت میں 2.2 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے اور پائیدار پیداواری صلاحیت کے لیے موسمیاتی لحاظ سے سمارٹ اور لچکدار زرعی طریقوں اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے چاول اور گندم کی فصلوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا اندازہ لگانے اور وسط صدی (2040-2069) کے دوران چاول اور گندم کی فصلوں کے لیے موافق حکمت عملی کی تیاری کے لیے مناسب کیس اسٹڈی کرنے کی فوری ضرورت ہے کیونکہ ان دونوں فصلوں کا ہماری معیشت میں اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ چاول کی پیداواری صلاحیت میں 15.2 فیصد اور گندم کی پیداواری صلاحیت میں 14.1 فیصد کمی ہوسکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ مجموعی طور پر چاول کی پیداوار میں 17.2 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 12 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔ فصل کی بوائی کے نظام الاوقات و کثافت، نائٹروجن اور آبپاشی کے لئے موسمیاتی تبدیلی کے موافق ٹیکنالوجی کے استعمال سے مجموعی پیداوار اور منافع کو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ بوائی کے نظام الاوقات میں تبدیلی، پودے لگانے کی کثافت، پھلوں کے ساتھ فصل کی گردش، زرعی جنگلات، مخلوط لائیوسٹاک سسٹم، آب و ہوا کے موافق پودوں کی کاشت، مویشیوں اور مچھلیوں کی مزاحم نسلیں، مونوگیسٹرک مویشیوں کی فارمنگ، قبل از وقت وارننگ سسٹم، فیصلہ سازی کے سسٹم، آب و ہوا، پانی، توانائی، اور مٹی کی سمارٹ ٹیکنالوجیز اور حیاتیاتی تنوع کو فروغ دے کر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔